یمن میں شیعہ باغیوں، سنی شدت پسندوں کے مابین خونریز جھڑپیں
18 اکتوبر 2014یمنی دارالحکومت صنعاء سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق وسطی یمن میں شیعہ جنگجوؤں اور سنی فائٹرز کے مابین اس لڑائی کی مقامی شہریوں اور علاقائی حکام نے تصدیق کر دی ہے اور یہ خونریزی اس امر کا ایک اور ثبوت ہے کہ پہلے ہی سے پرتشدد واقعات کی لپیٹ میں آیا ہوا یہ ملک اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی مسلح تنازعے کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے صنعاء سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ ہفتہ 18 اکتوبر کے روز اس لڑائی کا مرکز اِب کے صوبے میں یریم کا شہر رہا۔ اِب کا صوبہ صنعاء سے جنوب کی طرف واقع ہے اور اس صوبے کا اسی نام کا مرکزی شہر ملکی دارالحکومت صنعاء سے قریب 150 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں آج ہونے والی جھڑپوں سے قبل اِب کے شہر کے نواح میں کل جمعے کے روز حوثی شیعہ باغیوں اور سنی عقیدے کے مسلح قبائلیوں کے مابین ہونے والی لڑائی میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یریم کے مقامی رہائشیوں کے مطابق آج ہفتے کو علی الصبح شیعہ باغیوں پر کیے جانے والے ایک مسلح حملے میں چار حوثی جنگجو مارے گئے تھے۔ اس کے بعد حوثی جنگجوؤں نے شہر میں اصلاح پارٹی کے ایک مرکزی عہدیدار علی بدیر کے گھر پر حملہ کر دیا اور یوں دونوں مسلح گروپوں کے مابین ایک نئی خونریز جھڑپ شروع ہو گئی۔
یریم میں متعین اِب کے ایک صوبائی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ہفتے کی دوپہر تک شہر میں حوثی شیعہ فائٹرز اور اصلاح پارٹی کے حامیوں کے مابین ’شدید جھڑپیں’ جاری تھیں اور صورت حال ’بہت پریشان کن موڑ اختیار کرتی جا رہی‘ تھی۔
یمن میں، جس کی سرحدیں سعودی عرب سے ملتی ہیں، حوثی باغیوں نے گزشتہ مہینے خود کو اقتدار کے لیے رسہ کشی میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک طاقت کے طور پر تسلیم کرا لیا تھا۔ 21 ستمبر کو ان شیعہ باغیوں نے ملکی دارالحکومت صنعاء پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر منصور ہادی کی انتظامیہ کی طرف سے اس مسلح قبضے کے خلاف قدرے کم مزاحمت کی گئی تھی۔
صنعاء میں اس عسکری پیش رفت کے بعد حوثی جنگجوؤں، سنی قبائلیوں اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے مابین، جو حوثی باغیوں کی شیعہ ہونے کی وجہ سے شدید مخالفت کرتے ہیں، یمن کے متعدد صوبوں میں ہونے والی لڑائی اور بھی خونریز ہو چکی ہے اور ان حالات کو یمن کا ہمسایہ اور تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک سعودی عرب بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔