یورو کے تحفظ کے لئے سخت اقدامات کی منظوری
29 اکتوبر 2010ان اقدامات کے ذریعے یورو استحکامی پیکیج کے ضوابط کو سخت تر بنا دیا گیا ہے۔ آئندہ ایسے ملکوں کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکیں گی، جن کے ذمے واجب الادا قرضے اُن کی مجموعی قومی پیداوار کے ساٹھ فیصد سے زیادہ ہو جائیں گے۔ اُنہیں نئے جرمانے بھی کئے جا سکیں گے۔
جرمنی اور فرانس کو البتہ اپنی اِس مشترکہ تجویز کے لئے دیگر رکن ممالک کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ یورو کو آئندہ مالی بحرانوں کے مقابلے کے لئے زیادہ مضبوط بنانے کی غرض سے اُس لزبن معاہدے میں ترمیم کی ضرورت ہے، جو ابھی دسمبر سن 2009ء میں ہی نافذ العمل ہوا تھا۔ دیگر ممالک یہ جرمن فرانسیسی تجویز ماننے کے لئے تیار نہیں تھے کہ جو ممالک یورو استحکامی پیکیج کے ضوابط کی بار بار خلاف ورزی کریں، اُنہیں یونین کے فیصلوں میں ووٹ دینے کے حق سے عارضی طور پر محروم کر دیا جائے۔
تاہم گزشتہ رات کے آخری لمحات میں ایک ایسا مفاہمتی حل تلاش کر لیا گیا، جس سے جرمنی کو اپنی تجویز کے سلسلے میں جزوی کامیابی حاصل ہو گئی۔ اِس کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا:’’تمام ممالک اِس بات پر متفق تھے کہ بحرانوں سے نمٹنے کے لئے کوئی مستقل طریقہء کار موجود ہونا چاہئے۔ سب کے درمیان اِس بات پر بھی اتفاق تھا کہ اِس طریقہء کار کی تشکیل کا کام رکن ملکوں کو کرنا چاہئے اور سب کا اِس معاملے پر بھی اتفاقِ رائے تھا کہ اِس مقصد کے لئے لزبن معاہدے میں محدود ترمیم ضروری ہے۔‘‘
اِس محدود ترمیم کی نوعیت کیا ہو گی، اِس بات کا فیصلہ دسمبر میں مجوزہ اگلی یورپی یونین سربراہ کانفرنس کے موقع پر کیا جائے گا۔ یونان کے قرضوں کے سنگین بحران کے بعد سے یورو زون کے رکن ملکوں پر دباؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں رواں سال مئی میں یورپی یونین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے یونان اور بحران کے شکار دیگر یورپی ملکوں کے لئے 750 ارب یورو کا ایک ہنگامی امدادی فنڈ قائم کر دیا تھا۔
اِس فنڈ کی مدت 2013ء میں ختم ہو جائے گی۔ 2013ء میں اِس فنڈ کی مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے تاہم جرمن حکومت کو خطرہ ہے کہ وفاقی جرمن آئینی عدالت ایسی کسی توسیع کو خلافِ آئین قرار دے کر ناکام بنا سکتی ہے۔ چنانچہ گزشتہ رات برسلز میں میرکل نے ستائیس رکن ملکوں کے حلقے میں یہ بات واضح کر دی کہ جرمنی یورو زون کی بحران کی شکار ریاستوں کے لئے کسی مستقل طریقہء کار کا اُس وقت تک حصہ نہیں بن سکتا، جب تک کہ لزبن معاہدہ اِس بات کی واضح طور پر اجازت نہ دے۔
سویڈن کے وزیر اعظم فریڈرک رائن فیلڈ اُن یورپی قائدین میں سے ایک تھے، جن کی نظر میں جرمن موقف قابلِ فہم تھا:’’اگر جرمنی ہم سے یہ کہتا ہے کہ اِس مقصد کے لئے ہمیں لزبن معاہدے میں ترمیم کی ضرورت ہے اور اگر ہم کوئی ایک ایسی چھوٹی سی ترمیم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جو دیگر ممالک کے لئے مشکلات پیدا نہ کرتی ہو، تو تب ہم اِسے قبول کر سکتے ہیں۔‘‘
اِس سربراہ کانفرنس کی جانب سے یورپی کونسل کے صدر ہیرمان فان رومپوئے کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ وہ مختلف ممالک کے ساتھ گُفت و شُنید کے ذریعے لزبن معاہدے میں محدود ترمیم کی سفارشات تیار کریں اور غیر ذمہ دار ممالک کو ووٹ کے حق سے عارضی طور پر محروم کرنے کی تجویز پر کم از کم غور ضرور کریں۔ رومپوئے نے کہا کہ تمام ممالک بحرانوں سے نمٹنے کے لئے کسی مستقل طریقہء کار کی ضرورت کے قائل ہیں اور اِس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ دسمبر میں مجوزہ اگلی سربراہ کانفرنس میں ہی کر لیا جائے گا۔
اِس طرح یہ مجوزہ مستقل طریقہء کار 2013ء سے اب تک کے 750 ارب یورو کے بحرانی امدادی پیکیج کی جگہ لے لے گا۔ برسلز میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کی یہ دو روزہ سربراہ کانفرنس آج ایک مشترکہ اختتامی اعلامیے کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک