1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی پارلیمان کے الیکشن، ہالینڈ میں یورپ نواز پارٹیاں آگے

24 مئی 2019

ہالینڈ میں ہوئے یورپی پارلیمان کے الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق یورپ نواز سیاسی پارٹیوں نے زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ادھر برطانیہ میں اس الیکشن کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3Iztu
Niederlande Europawahl 2019 | Sieg Partij van de Arbeid | Feier
تصویر: Getty Images/AFP/K. van Weel

 ہالینڈ میں ہوئے یورپی پارلیمان کے الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق یورپ نواز سیاسی پارٹیوں نے زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ادھر برطانیہ میں اس الیکشن کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص یورپی ووٹرز کو حق رائے دہی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ہالینڈ میں ہوئے یورپی پارلیمان کے الیکشن کے ایگزٹ پولز کے مطابق یورپ نواز سیاسی پارٹیوں نے زیادہ تر سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔ یورپی یونین کی رکن اٹھائیس ریاستوں میں یورپی پارلیمان کے الیکشن چار مرحلوں میں ہو رہے ہیں، جن میں ہالینڈ اور برطانیہ ایسے ممالک تھے، جہاں جمعرات کو ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

ہالینڈ میں ہوئے ان انتخابات کے ابتدائی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ یورپی اتحاد کے بارے میں شک کا اظہار کرنے والے گروپس، اتنی کامیابی حاصل نہیں کر سکے، جتنا اندازہ لگایا گیا تھا۔ ایگزٹ پولز کے مطابق ڈچ کے لفٹسٹس نے یورپی یونین کے انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لے کر حیران کن فتح حاصل کی. بائیں بازو کے سیاسی دھڑوں نے اس طرح ہالینڈ کے وزیر اعظم مارک رُٹے کی جماعت اور دیگر عوامیت پسندوں پر سبقت حاصل کی ہے۔

اندازوں کے مطابق ہالینڈ کی لیبر پارٹی نے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ وزیر اعظم مارک رُٹے کی لبرل پارٹی کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ چار نشستوں پر کامیاب رہ سکتی ہے۔ یورپی پارلیمان میں ہالینڈ کے لیے کل چھبیس سیٹیں مختص ہیں۔ 

برطانیہ میں الیکشن اور بے ضابطگیاں

برطانیہ میں بھی جمعرات یورپی پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔ برطانوی الیکشن کمیشن نے ایگزٹ پول جاری نہیں کیے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ اس انتخابی عمل کے دوران کئی بے ضابطگیاں ہوئیں۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق نہ صرف برطانوی شہریوں کو ووٹ ڈالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ برطانیہ میں مقیم یورپی یونین رکن ریاستوں کے شہری بھی کئی مسائل  سے دوچار ہوئے۔ بتایا گیا ہے کہ ڈاک کے ذریعے ارسال کردہ متعدد بیلٹ پیپرز گم بھی ہو گئے۔

رائٹس گروپس کے مطابق برطانوی حکام ووٹرز کو اپنا حق رائے استعمال کرنے کی ضمانت نہیں دے سکے ہیں۔ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے یورپی ووٹرز تھے، جنہیں برطانوی حکام نے بتایا کہ ان کا ووٹ برطانیہ میں رجسٹر ہی نہیں کیا گیا ہے۔ پولنگ ورکرز کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے ووٹرز نے اپنے ووٹ کا اندراج کرانے میں سستی کی، جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہوئے۔ تاہم کچھ مقامی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں۔

برطانوی الیکشن کمیشن نے البتہ ان تمام تر الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے بریگزٹ میں تعطل کی وجہ سے یہ افراتفری پھیلی۔ ایک بیان کے مطابق حکومت کی طرف سے یورپی الیکشن کے حوالے سے احکامات بہت تاخیر سے ملے، جس کی وجہ سے مناسب تیاریاں مکمل نہ کی جا سکیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے یورپی ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے دانستہ طور پر منع نہیں کیا اور کسی بھی بے ضابطگی کے لیے الیکشن کمیشن ذمہ دار نہیں ہے۔

’برٹش ان یورپ‘ نامی گروپ نے بتایا ہے کہ اس الیکشن میں صرف یورپی ووٹرز کو مسائل کا سامنا نہیں رہا بلکہ برطانوی ووٹرز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یہ گروپ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ہے۔ اس گروپ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم ٹریزا مے کی حکومت برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے ستائیس رکن ممالک کے شہریوں کو ووٹ کا حق فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔

ع ب/ ک م / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں