یورپی پارلیمانی انتخابات اور دائیں بازو کا بڑھتا اثر و رسوخ
18 مئی 2019کثیر القومی جمہوریت میں یہ دنیا کا سب سے بڑی انتخابی عمل ہے تاہم یورپی پارلیمان کے انتخابات کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے ووٹرز کو باہر لانا ہمیشہ ہی ایک مشکل عمل رہا ہے۔ 2014ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں قریب 60 فیصد ووٹرز نے ووٹنگ کے عمل کو نظر انداز ہی کر دیا۔
لیکن دوسری طرف مہاجرین کے بحران کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال جو یورپ میں اخلاقی اور سیاسی سطح پر تقسیم کا باعث بنی اور پھر بریگزٹ کے عمل کے بعد بعض ووٹرز کے خیال میں 23 سے 26 مئی تک ہونے والے یورپی پارلیمان کے انتخابات، ایک طرح سے ایک موقع ہیں کہ قوم پرستوں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے عزائم کے آگے بند باندھا جا سکے۔
سیاسی امور کی ماہر اور کولون یونیورسٹی کے سوشل سائنس انسٹیٹیوٹ GESIS کی سربراہ الکسیا کاٹسانیڈو کے بقول یورپی یونین کے انتخابات کے حوالے سے ووٹر کے رویے کی شناخت تو بہت آسان ہے مگر اس سے نٹمنا مشکل: ’’ایک بڑی وجہ سیاسی اثر انگیزی ہے، یعنی یہ احساس کہ آپ کا ووٹ کسی چیز پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کاٹسانیڈو کا کہنا تھا، ’’اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ خیال بھی ہے کہ گزشتہ مرتبہ جب آپ نے ووٹ دیا تھا تو اس کے بعد سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا، لہٰذا آپ دوبارہ ووٹ کیوں دیں؟‘‘
یورپی اتحاد کے مخالفین کا 33 فیصد نشستیں حاصل کرنے کا امکان
یورپیئن کونسل کی جانب سے خارجہ تعلقات کے بارے میں جاری کی جانے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، ’’یورپی اتحاد مخالف قویں آئندہ یورپی پارلیمان کے انتخابات میں ایک تہائی نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔ مئی 2019ء میں ہونے والے انتخابات میں مفادات غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں۔‘‘
انتخابات کے حوالے سے تحقیق نے ایک بات البتہ واضح کی ہے کہ جب عوامیت پسند جماعتیں انتخاب لڑ رہی ہوں تو زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے آتے ہیں۔ یورپی یونین میں قومی شناخت کھو جانے کے خوف میں مبتلا افراد عوامیت پسند جماعتوں کے حق میں باہر نکلتے ہیں تو جو دوسری جانب سیاسی طور پر اعتدال پسند اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہیں تاکہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی قوتوں کے یورپ کی رہنمائی کا راستہ روکا جا سکے اور تاریخ کے سیاہ ترین لمحات کا اعادہ ہو پائے۔
ا ب ا / ع ت (الیزبیتھ شوماخر)