یورپی یونین افغان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرنے پر تیار
3 ستمبر 2021یورپی یونین نے جمعے کے دن جاری کردہ اپنے ایک اہم اعلان میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مشروط روابط قائم کیے جائیں گےاور اگر سلامتی کی صورتحال اجازت دیتی ہے تو افغان دارالحکومت میں موجودگی ممکن بنائے جائے گی تاکہ اس شورش زدہ ملک سے نکلنے والے مقامی لوگوں کو مدد فراہم کی جا سکے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران جوزف بوریل نے کہا، ''ہمیں افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ انگیج ہونا پڑے گا، جس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جا رہا ہے بلکہ یہ صرف ایک آپریشنل انگیجمنٹ ہے‘‘۔ سلووانیہ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ایک میٹنگ کے بعد جمعے کے دن بوریل نے مزید کہا کہ اس طرح کے روابط کا مستقبل دارصل نئی افغان حکومت کی رویوں سے ہی طے ہو گا۔
شرائط کیا ہیں؟
بوریل کے مطابق یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ان روابط کے قیام کے لیے کچھ شرائط بھی تجویز کی ہیں، جن پر طالبان کا عمل کرنا ضروری ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ان اہم بینج مارکس میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان کی نئی حکومت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ ان کے دور میں افغان سرزمین کو دہشت گردی کے ٹھکانوں کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
اس کے علاوہ ان شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان کی نئی حکومت خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے گی جبکہ ملکی میڈیا کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ طالبان نئی حکومت میں تمام سیاسی و نسلی گروپوں کی شمولیت ممکن بنائیں گے اور نئی حکومت تمام افغان عوام کی نمائندہ ہو گی۔
بوریل نے کہا کہ یہ شرط بھی شامل ہے کہ طالبان کی حکومت اپنے ان وعدوں کو بھی پورا کرے گی، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ اگست کے بعد بھی افغانستان میں موجود غیر ملکیوں اور ایسے افغان شہریوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت ہو گی، جو خود کو افغانستان میں غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران نے یہ بھی کہا ہے کہ یورپی یونین کابل میں اپنی موجودگی قائم کرنے کے بارے میں متفق ہے تاہم اس کے لیے حالات کا سازگار اور سکیورٹی کو یقینی ہونا ضروری ہے۔ اس مشن کے تحت یورپی ممالک افغان طالبان کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔
بوریل کے مطابق اس مجوزہ مشن کے تحت یورپی ممالک افغان عوام کے لیے امدادی کام بھی کرے گی لیکن ساتھ ہی نئی افغان حکومت کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ طالبان اس مشن کے ساتھ کس حد تک تعاون کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے علاوہ اس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی رابطہ کاری بڑھائی جائے گی تاکہ وہاں جانے والے افغان مہاجرین کے ساتھ متعلقہ میزبان ممالک کو بھی مدد فراہم کی جا سکے۔
ع ب/ ع ح (خبر رساں ادارے)