1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپی یونین سے بیزاری‘ ترکی چین و روس کے قریب ہوتا ہوا

عابد حسین
20 نومبر 2016

ترکی کے صدر نے کہا ہے کہ اب اُن کا ملک یورپی یونین میں شمولیت کا زیادہ خواہشمند نہیں رہا۔ انہوں نے چین اور روس کی قیادت میں قائم وسطی ایشیائی ریاستوں کے بلاک میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2SyAt
Türkische und EU-Flagge
تصویر: picture alliance/dpa/M. Schrader

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ملک ترکی گزشتہ گیارہ برسوں سے یورپی یونین میں شمولیت کا مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ترکی کا یونین میں شمولیت کا امکان اس لیے انتہائی کم ہو گیا ہے اور اُس کی وجہ رواں برس جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد کیے گئے اقدامات ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ دو تین ماہ کے دوران انقرہ حکومت نے جمہوری اقدار کے منافی جو انتظامی فیصلے کیے ہیں، اُن پر یورپ سمیت عالمی سطح پر تنقید سامنے آ چکی ہے۔

ترک اخبار حریت کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے پاکستان اور ازبکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد اپنے صدارتی ہوائی جہاز میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے یورپی یونین میں شمولیت پر بیزاری کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس کا بھی عندیہ دیا کہ یورپی یونین کی جگہ شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بنا جا سکتا ہے۔ ایردوآن کے مطابق انہوں نے قزاقستان اور روس کے صدور نور سلطان نذربائیف اور ولادیمیر پوٹن کو شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) میں شامل ہنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

Türkei Präsident Recep Tayyip Erdogan
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآنتصویر: Picture-Alliance/dpa/S. Sunat

ترک صدر کے مطابق اگلے مہینوں میں مثبت پیش رفت کے اشارے آئے تو اُن کا ملک شنگھائی گروپ کا حصہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ترکی کا سماجی و اقتصادی معاملات میں عمل کرنے کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سن 2001 میں کیا گیا تھا۔ اس میں چین اور روس سمیت چار وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں۔

ازبکستان سے ترکی واپس جاتے ہوئے صدر رجب طیب ایردوآن نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو سے کہا ہے کہ وہ دہشت گرد فوجیوں کو پناہ دینے کوئی کوشش نہ کرے۔ ان کا یہ بیان جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد نیٹو کے دستوں میں شامل کئی فوجی افسران کی جانب سے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی درخواستیں جمع کرانے کے تناظر میں ہے۔ ایردوآن کے بقول ایک دہشت گرد فوجی کوکسی طرح بھی دفاعی اتحاد نیٹو کی ملازمت اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دو روز قبل نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن بگ نے بتایا تھا کہ نیٹو کی کمانڈ دستوں میں شامل کئی ترک فوجیوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔