یورپی یونین سے دوری ہی بہتر ہے یا قربت؟ ناروے مخمصے میں
17 مارچ 2016یورپی یونین میں شمولیت کی تجویز پر ناروے میں پہلا ریفرنڈم 1972ء میں اور دوسرا 1994ء میں ہوا تھا۔ دونوں ہی بار ناروے کے عوام کی اکثریت نے یونین میں شمولیت کی تجویز مسترد کر دی تھی۔
آج کل بظاہر ناروے ہر دو طرح سے اپنی موجودہ حیثیت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایک طرف تو ناروے اربوں ڈالر مالیت کی تازہ اور منجمد مچھلی تقریباً کوئی محصولات ادا کیے بغیر یورپی یونین کو فروخت کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے مقامی کاشتکاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یورپی یونین سے اَشیائے خوراک کو بھی ملک میں آنے سے روک رہا ہے۔ مچھلی اور زراعت کے شعبوں میں یہ وہ مراعات ہیں، جو ناروے نے پانچ سو ملین صارفین کی منڈی تک رسائی کے لیے یونین کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں حاصل کی ہیں۔
اُدھر اس سال تئیس جون کو برطانیہ میں مجوزہ ریفرنڈم میں برطانوی عوام یہ طے کریں گے کہ آیا برطانیہ کو یونین میں شامل رہنا چاہیے یا اس بلاک سے نکل جانا چاہیے۔ یونین میں رکنیت کو شک و شبے کی نظر سے دیکھنے والوں کے خیال میں اگر برطانیہ اس ریفرنڈم کے بعد یونین سے نکل جاتا ہے تو اُس کے لیے ناروے بہترین نمونہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برطانیہ کے برعکس ناروے یونین کے شینگن زون کا رکن ہے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے خیال میں ناروے برطانیہ کے لیے کوئی اچھی مثال اس لیے نہیں ہے کہ ناروے یونین کو پیسے زیادہ دیتا ہے جبکہ اس کا یونین کے اندر اثر و نفوذ نہ ہونے کے برابر ہے۔
دوسری جانب خود ناروے کے اندر بھی بہت سے لوگ ناروے اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے سمجھوتوں کی شرائط سے مطمئن نہیں ہیں۔ ناروے کی 5.2 ملین نفوس پر مشتمل آبادی یونین کی داخلی منڈی تک رسائی کے لیے یونین کو سینکڑوں ملین یورو ادا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ناروے میں پانچ ہزار قوانین ایسے ہیں، جن کی بنیاد یورپی یونین کی جانب سے دی گئی ہدایات پر ہے۔ ناروے چاہے تو ان ہدایات کو ویٹو بھی کر سکتا ہے لیکن یونین کے ساتھ تعلقات خراب ہو جانے کے ڈر سے عملاً اُس نے اب تک ایک بار بھی ایسا نہیں کیا۔ ناروے کے بین الاقوامی امور کے انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اُلف سویرڈروپ کے مطابق ’ناروے کا ماڈل ایک ایسا انضمام ہے، جس میں نمائندگی نہیں ہے‘۔
ایسے میں آج کل کے ناروے میں عوام اس سوال پر منقسم نظر آتے ہیں کہ آیا ناروے کو یورپی یونین کی مکمل رکنیت اختیار کر لینی چاہیے۔ کنزرویٹو پارٹی، جس کی قائد وزیر اعظم ایرنا سولبرگ ہیں، یونین کی مکمل رکنیت کی حامی ہیں۔
دوسری جانب ناروے میں 2005ء کے بعد سے رائے عامہ کے کسی ایک بھی جائزے میں عوام نے یونین کی رکنیت کی حمایت نہیں کی ہے۔ ناروے کے بہت سے شہری سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک یونین کے بغیر ہی بہتر ہے۔ ناروے تیل اور گیس کی آمدنی سے 835 ارب ڈالر مالیت کا دنیا کا سب سے بڑا ویلتھ فنڈ رکھتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں 5.2 ملین نفوس میں سے ہر ایک کے لیے ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر موجود ہیں۔