یورپی یونین میں جرمنی: آبادی سب سے زیادہ، بچے سب سے کم
11 اگست 2011یہ شرح پوری یورپی یونین میں کسی بھی ملک کی مجموعی آبادی میں بچوں کی سب سے کم شرح ہے۔ جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے اور ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک بھی۔ لیکن جرمن شہریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بچے پیدا کر کے انہیں پالنے کے بجائے، اپنی زندگی کسی بھی خاندانی ذمہ داری یا فکر مندی کے بغیر گزارنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام جرمن خاتون اپنی زندگی میں اوسطاﹰ جتنے بچوں کو جنم دیتی ہے، وہ شرح پوری یورپی یونین میں سب سے کم ہے۔
بچے اگر کم پیدا ہو رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں بالغوں کے مقابلے میں نابالغ شہریوں کی شرح بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جرمن معاشرہ مجموعی طور پر تیزی سے بوڑھا ہوتا جا رہا ہے۔ اگر شرحء پیدائش میں کافی اضافہ نہ ہوا تو چند ہی عشروں بعد جرمن ریاست کے لیے اپنے سماجی نظام کو قائم رکھنا قدرے مشکل ہو جائے گا۔
جرمنی میں ہر دور میں پینشن یافتہ افراد کو، ان کی اپنی ادا کردہ رقوم کے علاوہ، پینشن کی ادائیگی ان مالی وسائل سے بھی کی جاتی ہے، جو نوجوان کارکن ریاستی پینشن فنڈ میں جمع کراتے ہیں۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ نوجوان کارکنوں کی مسلسل کم ہوتی ہوئی تعداد کو زیادہ سے زیادہ بزرگ شہریوں کو ان کی پینشن کی ادائیگی کے لیے رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔
لیکن اگر شرحء پیدائش میں کمی اور آبادی میں بوڑھے شہریوں کے تناسب میں اضافے کا یہی رجحان جاری رہا، تو چالیس پچاس سال بعد آج کے نوجوان کارکنوں کو ان کی پینشنوں کی ادائیگی کے لیے رقوم کون ادا کرے گا؟
وفاقی جرمن حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے شہریوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، انہیں ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے اور روزگار کی جگہوں پر چھوٹے بچوں کے لیے کنڈر گارٹن قائم کرنے کا قانون بھی موجود ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ عام شہریوں کو بچوں کی پیدائش کی ترغیب دی جا سکے۔
لیکن پھر بھی ویزباڈن میں وفاقی دفتر شماریات کے مطابق اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قریب 81 ملین کی مجموعی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کی شرح صرف 16.5 فیصد یا 13.1 ملین رہ گئی ہے۔ دس سال پہلے کے مقابلے میں یہ تعداد 2.1 ملین کم ہے۔
آج کے جرمنی میں زیادہ سے زیادہ بچے ایسے گھرانوں میں پرورش پا رہے ہیں، جو مالی حوالے سے محدود وسائل والے گھرانے ہوتے ہیں اور یوں قریب ہر چھٹا بچہ غربت کا شکار ہو جاتا ہے۔ جرمنی کے برعکس ہمسایہ ملک فرانس کی آبادی میں نابالغ افراد کی شرح 22 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عدنان اسحاق