یورپی یونین میں غربت کے شکار 80 ملین شہری
8 اپریل 2010جرمنی میں 2008ء میں مکمل کئے گئے ایک جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت اور یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ہر ساتواں شہری غربت کا شکار ہے۔ ایسے شہریوں میں غربت کے خاتمے اور انہیں سماجی طور پر بالکل الگ تھلگ ہو کر رہ جانے سے بچانے کی کوششیں مسلسل کی جاتی ہیں۔ ان کاوشوں میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایسی تنظیمیں اور ادارے ان شہریوں کی مدد کی ذمہ داری اپنے سر لے لیتے ہیں، جن کو غربت سے نکالنے کی ریاستی کوششیں ناکام رہ جاتی ہیں۔
یورپی یونین کے دفتر شماریات کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پورے یورپ میں کروڑوں شہری ایسے ہیں، جنہیں غربت اور مالی مسائل کے باعث مرکزی سماجی دھارے سے کٹ کر رہ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت یورپی یونین میں قریب 80 ملین باشندے ایسے ہیں، جو سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں۔ ایسے شہریوں کو روزگار کی منڈی، تعلیمی شعبے، رہائش کی مناسب سہولیات کے حصول اور سماجی اور مالیاتی نوعیت کی پیشہ ورانہ خدمات جیسے شعبوں میں اپنی مالی صورت حال کی بنا پر بہت ناموافق حالات کا سامنا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین نے 2010 کو غربت اور سماجی طور پر کٹ کر رہ جانے کے عمل کے خلاف یورپی سال قرار دیا۔ اس سلسلے میں رکن ریاستوں میں ملکی سطح کے علاوہ پوری یونین کی سطح پر بھی بہت سے منصوبوں پر عمل جاری ہے۔ جرمنی میں غربت کے خلاف سول سوسائٹی کی جدوجہد کی تاریخ عشروں پرانی ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی صرف بیرون ملک ہی نہیں بلکہ اندرون ملک بھی غربت اور محرومی کے خاتمے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
یورپی یونین کے کمیشن کی وضع کردہ تعریف کے مطابق کسی بھی رکن ملک میں ہر وہ شہری غربت کا شکار تصور کیا جاتا ہے، جس کو دستیاب مالی وسائل اس ملک میں ایک عام شہری کی اوسط آمدنی کے 60 فیصد سے بھی کم ہوں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو جرمن ادارہ برائے اقتصادی تحقیق کے ایک مطالعے کے مطابق 2008ء میں جرمنی میں ہر ساتویں شہری کو غربت کا سامنا تھا۔ یہ تعداد جرمنی کی مجموعی آبادی کے 14 فیصد سے بھی زائد بنتی ہے۔
جرمنی میں بہت سے سماجی ماہرین اس بارے میں عوامی بحث کا خیرمقدم تو کرتے ہیں کہ ملک میں بے روزگار افراد کو دیے جانے والے مالی الاؤنس اور والدین کو ان کے ہر بچے کی وجہ سے ملنے والے چائلڈ الاؤنس کی مالیت میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ ماہرین اس امر کے قائل بالکل نہیں ہیں کہ ضرورت مند افراد کو دی جانے والی ایسی سرکاری امداد کی مالیت میں اضافہ کر کے غربت کے مسئلے کا دیرپا حل نکالا جا سکتا ہے۔
جرمنی جیسے ملک میں، جہاں سال رواں کے دوران وفاقی حکومت کو سالانہ بجٹ میں خسارہ پورا کرنے کے لئے ریکارڈ حد تک نئے قرضے لینا پڑے، وہاں غربت کے شکار افراد کو مالی تنگ دستی سے نکالنے کا زیادہ تر کام دوبارہ سول سوسائٹی کے اداروں کو ہی کرنا پڑے گا۔
گزشتہ چودہ برسوں سے اعزازی طور پر سماجی شعبے میں خدمات انجام دینے والے معروف جرمن امدادی کارکن فیلکس فن گروئن بیرگ کہتے ہیں: ’’سماجی اشتراک عمل کے بغیر اس مسئلے کا حل ناقابل تصور ہے۔ اگر غربت کے خاتمے کے لئے سماجی شعبے کی طرف سے کوششیں نہ کی جاتیں، تو ہم کب کے دیوالیہ ہو چکے ہوتے، اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی مسلسل مالی تنگدستی کا شکار رہتی۔ میری رائے میں غربت کے مسئلے کا صرف انہی اضافی کوششوں کے ذریعے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ امدادی تنظیموں اور عام شہریوں دونوں کو چاہیے کہ انسانوں کو اکیلے پن کا شکار بنا دینے والے شہروں میں ہمسایوں کے مابین روابط کو بھی فروغ دیا جائے۔ اس امر کا اطلاق دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے کہ دوطرفہ بنیادوں پر امداد کو یقینی بنانا غربت کے خلاف جدوجہد کی کامیابی کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ میری رائے میں یہی بات فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے۔‘‘
غربت، محرومی اور مالی تنگدستی کے خلاف مصروف عمل بہت سے غیر سرکاری جرمن ادارے صرف اندرون ملک ہی نہیں، بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سال منائے جانے والے غربت کے خلاف یورپی سال کی مناسبت سے کاریتاس نامی تنظیم نے یورپی سطح پر ایک ایسی مشترکہ مہم بھی شروع کر رکھی ہے، جسے Zero Poverty یا صفر فیصد غربت کا نام دیا گیا ہے۔ جرمنی میں کاریتاس کی ملکی تنظیم کی نائب ترجمان باربرا فرانک کہتی ہیں کہ صفر فیصد غربت نامی اس مہم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ دیگر شعبوں میں نپے تلے منصوبوں کے علاوہ سیاستدانوں پر بھی دباؤ ڈالا جائے۔
باربرا فرانک کہتی ہیں: ’’سیاستدانوں پر دباؤ کی کوششوں کی ایک مثال وہ اجتماعی درخواست بھی ہے، جس کا عنوان ہے ’مشترکہ طور پر غربت کے خلاف۔‘ ہماری کوشش ہے کہ سال رواں کے آخر تک ہم ایسے ایک ملین جرمن شہریوں کے دستخط حاصل کر لیں، جو اس مہم کے حامی ہیں۔ اس درخواست میں سیاستدانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ٹھوس اقدامات کے ذریعے غربت کے مقابلے کو یقینی بنائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری اگر کم ہوتی ہے، تو وہ نظر بھی آئے۔ تعلیمی شعبے میں اگر زیادہ ریاستی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، تو اس کے نتائج بھی دیکھے جا سکیں۔ یہ وہ ٹھوس اقدامات ہیں، جن کا ہم سیاستدانوں سے اس اجتماعی درخواست کی صورت میں مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘
جرمنی میں غربت کے خاتمے کی کوششیں کرنے والے ملکی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کُرٹ بانگَیرٹ کے بقول تعلیمی شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جانی چاہیے، کیونکہ تعلیم ہی غربت کے خلاف سب سے اچھا ہتھیار ہے۔ کُرٹ بانگَیرٹ تعلیمی شعبے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ریاست اور سول سوسائٹی دونوں ہی کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ تعلیمی شعبے کو ترقی دی جائے۔ اس لئے کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو انسانوں کی اچھی کارکردگی، تخلیقی سوچ اور بہتر مصنوعات جیسے ان عوامل کا ضامن ہو سکتا ہے، جو غربت کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان