1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ سے بے دخل افغان، جنگ اور بے روزگاری میں گھرے

عاطف بلوچ، روئٹرز ڈی پی اے، اے ایف پی
4 اپریل 2017

رواں ہفتے یورپ سے مزید دو طیارے سیاسی پناہ کے ناکام درخواست گزار افغان باشندوں کو لے کر کابل پہنچ گئے ہیں۔ یورپی یونین اور کابل حکومت کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت ناکام درخواست گزاروں کو افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2afoo
Afghanistan abgeschobene Flüchtlinge aus Deutschland kommen in Kabul an
تصویر: Getty Images/AFP/W. Kohsar

افغان وزارت برائے مہاجرت کے ترجمان حافظ احمد میاخیل کے مطابق رواں برس اب تک 248 افغان تارکین وطن کو یورپ سے ان کے آبائی ملک بھیجا جا چکا ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد 580 تھی۔

جبری طور پر یورپ بدر کیے جانے والے افغان باشندوں کی تعداد ان ہزاروں افغان باشندوں کے مقابلے میں خاصی قلیل ہے، جو رضاکارانہ طور پر وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔ تاہم ان جبری ڈیپورٹیشنز پر متعدد یورپی حلقوں کی جانب سے تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ افغان تارکین وطن کو ایک ایسے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، جہاں اب بھی طالبان کی پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں اور جہاں ملک کے قریب دو تہائی حصے پر کابل حکومت کا کنٹرول ہی نہیں۔

جرمنی کی جانب سے مزید 15 افغان باشندوں کو منگل کے دن کابل پہنچایا گیا، جب کہ افغانستان واپس بھیجے جانے والے دیگر افغان باشندوں میں سے 1 آسٹریا سے اور دس سویڈن سے تھے۔

Abschiebung abgelehnter Asylbewerber nach Afghanistan
جرمنی سے بھی مزید افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا ہےتصویر: Reuters/R. Orlowski

یورپی حکومتوں کا کہنا ہے کہ صرف ایسے افغان باشندوں کو افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے، جن کی جانب سے سیاسی پناہ کے لیے جمع کرائی جانے والی درخواستیں تمام تر سطحوں پر رد ہوئیں جب کہ افغانستان کے متعدد حصے محفوظ ہیں اور واپس بھیجے جانے والے افراد کا تعلق انہیں محفوظ شہروں سے ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں یورپ میں پناہ کے لیے پہنچنے والوں میں شامی مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ تھے جب کہ دوسرے نمبر پر سب سے بڑی تعداد میں افغان باشندے یورپ پہنچے تھے۔

ادھر افغان وزارتِ مہاجرت کے ترجمان میاخیل کا کہنا ہے کہ معاہدے کی رو سے افغان حکومت اپنے شہریوں کو قبول کرنے کی پابند ہے، تاہم اسے بین الاقوامی برادری کی مزید امداد کی ضرورت بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ملک طالبان، داعش اور القاعدہ سے لڑائی میں مصروف ہے اور دوسری جانب ان کے ملک کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ تارکین وطن کی واپسی کی صورت حال کا سامنا بھی ہے۔