یورپ میں شامی مہاجرین ڈیپریشن اور ذہنی مسائل کا شکار
11 اکتوبر 2016سن دو ہزار پندرہ میں برلن میں ہونے والی ورلڈ ہیلتھ سمٹ کے اہم ترین نکات میں سے ایک’پناہ گزینوں کی صحت‘ تھا۔ اور ایک سال بعد اس ماہ نو اکتوبر سے گیارہ اکتوبر تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں بھی یہی موضوع سرِفہرست ہے۔ اس سال چند جرات مند اسپیکرز مہاجرین کی ذہنی صحت پر بات کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس ہونے والی ہیلتھ کانفرنس پر اگر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز بھی کم و بیش ایسے ہی الفاظ سے ہوا تھا جو اس برس استعمال کیے گئے۔ ایسے میں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ایک برس میں صورتِ حال میں کوئی بہتری آئی یا نہیں۔
سن دو ہزار پندرہ کے اسپیکر ز پینل کے ایک شریک اور یورپ اور وسطی ایشیا کے مہاجرین کی صحت کے معاملات کے لیے سینئر علاقائی مینیجر رومیانا پیٹرووا بینیڈیکٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ بد قسمتی سے میری رائے میں صورتِ حال ابتر ہوئی ہے۔ مہاجرین کی صحت کے حوالے سےطبی عملے،ماہرینِ نفسیات، ڈاکٹرز اور ترجمانوں کی کمی رہی۔‘‘
بینیڈیکٹ نے مزید کہا کہ تارکینِ وطن اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں ہیں اور انہیں زیادہ غیر یقینی صورت ِ حالات کا سامنا ہے۔ بینڈیکٹ نے کہا کہ یورپی یونین کمیشن کی جانب سے تمام تر کوششوں اور فنڈنگ کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پناہ گزینوں کی صحت کے معاملات میں بہتری آئی ہے۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ اِیس ڈاکور کا کہنا تھا،’’شام اور عراق میں ذہنی صحت بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جنگ زدہ اور متنازعہ علاقوں میں یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔
ڈاکور نے مزید کہا کہ،’’ جب ذہنی صحت کے مسئلے سے ڈِیل کرنا ہو تو متاثرہ فرد سے ملنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اب تک ہمارے پاس ذہنی مسائل کے شکار مہاجرین کے بارے میں معلومات ناکافی ہیں۔ اور ہم نہیں جانتے کہ یہ ڈیٹا کس طرح جمع کیا جا سکتا ہے۔‘‘