یورپ میں مہاجرین کو پناہ دینے کی گنجائش ختم ہوتی ہوئی
4 ستمبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے سے بتایا ہے کہ یورپ کی طرف سے مزید مہاجرین کو پناہ دینے صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے، بالخصوص ایسے مہاجرین جو اقتصادی نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں 65 ملین افراد بے گھر ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی کوشش ناگزیر ہے۔
ڈونلڈ ٹسک نے جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر آج بروز اتوار صحافیوں سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ یورپ اس بحران سے نمٹنے کی کوشش میں ہے لیکن اس تناظر میں بالخصوص جی ٹوئنٹی کے رکن ممالک کو بھی اپنا حصہ بھی ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے چین کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ تمام ساتھیوں سے اس حوالے سے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔
اگرچہ آغاز میں یورپ بالخصوص جرمنی نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تاہم یورپ میں حالیہ متعدد دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے صورت حال کچھ بدل سی گئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل ابھی تک اپنے مؤقف پر برقرار ہیں کہ اس بحران پر قابو جا سکتا ہے لیکن دوسری طرف جرمنی میں بھی عوامی رائے میں تبدیلی آئی ہے۔
مارچ میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان طے پانے والی ایک ڈیل کے تحت انقرہ حکومت کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے غیرقانونی طور پر بحیرہء ایجیئن کے راستے یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے مہاجرین کو روکے اور یونان پہنچنے والے مہاجرین کو دوبارہ قبول کرے علاوہ ازیں اپنے ہاں موجود مہاجرین کی بہبود کے لیے اقدامات بھی کرے۔
اس ڈیل کی وجہ سے یورپ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ کچھ تھم سا گیا ہے لیکن یورپی یونین اور ترکی کے مابین حالیہ تناؤ کے باعث ایسے خدشات موجود ہیں کہ یہ ڈیل ناکام ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف جی ٹوئنٹی سمٹ کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما اور ترک صدر نے ملاقات میں مہاجرین کے بحران پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں اوباما نے اس بحران سے نمٹنے کے حوالے سے ترکی کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ شامی اور عراقی مہاجرین کو پناہ دینے کے علاوہ انقرہ نے ان کی مدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
اوباما نے کہا کہ نہ صرف امریکا بلکہ عالمی برداری کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر ترکی کے ساتھ تعاون کرے۔