’یورپ کا ایش ٹرے‘ کہلانے والے ملک میں تمباکو نوشی آخر ممنوع
1 نومبر 2019یہ عمومی ملک گیر پابندی جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں آج جمعہ یکم نومبر سے نافذالعمل ہو گئی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کا مقصد صحت عامہ کا تحفظ اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے شہریوں کے حقوق کا احترام بھی ہے اور یہ بھی کہ آسٹریا کی وہ ساکھ بھی بہتر بنائی جا سکے، جس کے باعث اسے براعظم 'یورپ کا ایش ٹرے‘ کہا جاتا ہے۔
ایلپس کے پہاڑی سلسلے میں واقع اس وفاقی جموریہ میں اب جو نیا قانون مؤثر ہو گیا ہے، اس کی منظوری ملکی پارلیمان نے اس سال جولائی میں دی تھی۔
اس طرح آسٹریا بھی تمباکو نوشی سے متعلق اپنے قوانین کی سطح پر زیادہ تر یورپی ممالک کا ہم پلہ ہو گیا ہے۔
اس قانون کے تحت جو تمباکو نوش شہری گاہکوں کے طور پر آئندہ کسی بھی شراب خانے یا ریستوراں کے ان ڈور حصوں میں تمباکو نوشی کے مرتکب پائے گئے، انہیں ایک ہزار یورو (1115 امریکی ڈالر) جرمانہ کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ ایسے عوامی کاروباری اداروں کے وہ مالکان، جو اپنے ہاں مہمانوں کو سگریٹ نوشی کی اجازت دیں گے، انہیں دو ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
یہی نہیں بلکہ اگر ایسے ریستورانوں اور بارز کے مالکان نے یہ جرم بار بار کیا، تو انہیں 10 ہزار یورو تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نئی ملک گیر پابندی کا اطلاق صرف سگریٹ یا سگار پینے پر ہی نہیں ہو گا بلکہ یہ نیا اور بہت سخت قرار دیا جانے والا قانون شیشے اور الیکٹرانک یا ای سگریٹس پر بھی لاگو ہو گا۔
آسٹریا تاحال 'یورپ کا ایش ٹرے‘ کیوں؟
آسٹریا کو 'یورپ کا ایش ٹرے‘ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کی کُل آبادی صرف 8.8 ملین ہے لیکن اس میں تمباکو نوش افراد کا تناسب 25 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چوٹھا آسٹرین شہری تمباکو نوش ہے۔
یورپی سطح پر یہ شرح اس لیے بہت زیادہ ہے کہ اب تک 28 ممالک پر مشتمل پوری یورپی یونین میں تمباکو نوش شہریوں کی اجتماعی اوسط صرف 18 فیصد ہے مگر آسٹریا میں قومی سطح پر یہ اوسط یورپی اوسط کا تقریباﹰ 150 فیصد بنتی ہے۔
یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں سے 17 میں اب تک تمباکو نوشی کے خلاف وسیع تر اور بہت جامع قوانین نافذ کیے جا چکے ہیں۔ آسٹریا میں اب جو نیا 'نو اسموکنگ‘ قانون نافذ ہو گیا ہے، اس کے لیے وفاقی پارلیمان میں سیاسی بحث مجموعی طور پر دس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔
م م / ا ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)