یورینیم افزودہ کرنے کا ایران کا اعلان ’اشتعال انگیز‘، امریکا
7 جولائی 2021ایران نے جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو منگل کے روز مطلع کیا کہ وہ ری ایکٹر ایندھن کے لیے 20 فیصد تک افزودہ یورنییم تیار کرنا چاہتا ہے۔ یورپی ممالک نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ امریکا نے اسے ”اشتعال انگیز"قرا ردیا۔ برطانیہ، جرمنی اور فرانس کا کہنا ہے کہ ایران کے اس اقدام سے ویانا مذاکرات خطرے میں پڑ جائیں گے۔
ایران کی جانب سے بیس فیصد یورینیم افزودہ کرنے کے فیصلے سے سن 2015 کے جوہری معاہدے کی مزید خلاف ورزی ہو گی۔ یہ معاہدہ براک اوباما کی انتظامیہ کے دور میں کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت یورینیم کو افزودہ کرنے پر پابندی عائد ہے کیونکہ افزودہ یورینیم کا جوہری بم بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ معاہدے کی رو سے ایران یورینیم خود افزودہ کرنے کے بجائے بیرونی ملکوں سے خرید سکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگارو ں سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم نے واضح کردیا ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز اقدامات سے بات چیت میں ایران کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔" انہوں نے مزید کہا،”ہم ایران سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے خطرناک راستے پر چلنے کی پالیسی ترک کرے۔"
یورپی طاقتوں نے ایران پر نکتہ چینی کی
برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے بھی ایران سے امریکا کی اپیل کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ آئی اے ای اے نے ایران کے فیصلے پر ”سخت تشویش" کا اظہار کیا ہے۔
ان تینوں ملکوں نے مشترکہ بیان میں کہا،”ایران کو سویلین ضرورتوں کے لیے افزودہ یورینیم کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اوریورینیم کو افزودہ کرنے کا عمل جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا ایک اہم قدم ہے۔"
خیال رہے کہ ایرانی رہنماوں کا ہمیشہ اصرار رہا ہے کہ تہران کا جوہری پروگرام بجلی پیدا کرنے اور طبی مقاصد کے لیے ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو حاصل ہونے والے آئی اے ای اے کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے یورینیم کو 20 فیصد افزودہ کرنے کا عمل شروع بھی کردیا ہے۔
جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش
اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے علاوہ جرمنی جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایرانی مذاکرات کاروں کے ساتھ اپریل سے ہی ویانا میں بات چیت کررہے ہیں۔ تاہم حالیہ ہفتوں کے دوران بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور 20جون کو مذاکرات ملتوی کردیے گئے۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود رکھنے کے بدلے میں اس پر عائد پابندیوں سے راحت دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کو ایران کے جوہری تنصیبات کی نگرانی کرنے کی اجازت بھی ہو گی۔
اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں جوہری معاہدے سے امریکا کو یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا حالانکہ معاہدے کے دیگر فریقین نے امریکا کے بغیر ہی اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ نے بعض شرطوں کے ساتھ ایک بار پھر اس معاہدے کو بحال کرنے کی خواہش ظاہر کی جس کے بعد ویانا میں اس حوالے سے اپریل میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)