یوزیف فرٹسل کیس: مقدمے کی سماعت شروع
16 مارچ 2009آسٹریا سے تعلق رکھنے والے یوزیف فرٹسل کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔
تہتر سالہ یوزیف فرٹسل پر الزام ہے کہ اس نے چوبیس سال تک اپنی بیٹی کی آبروریزی کی، اس کو چوبیس برسوں تک اپنے ہی گھر کے تہہ خانے میں یرغمال بنائے رکھا جس دوران کل سات بچّے پیدا ہوئے۔ اس ریٹائیرڈ آسٹرئین انجینیئر پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے بطن سے پیدا ہونے والے ایک بچّے کی ہلاکت کا ذمہ دار بھی ہے۔ گذشتہ برس اپریل میں یوزیف فرٹسل کا گھناؤنا جرم اس وقت منظرِ عام پر آیا تھا جب فرٹسل کے ایک بچّے کو شدید بیماری کی وجہ سے ہسپتال لےجانا پڑگیا تھا۔ یوزیف فرٹسل کو ان الزامات کے ثابت ہونے پر بیس سال تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
یورپ کے شہری یوزیف فرٹسل کے بارے میں انتہائی منفی خیالات رکھتے ہیں کیوں کہ اس طرح کے کسی واقعے کی یورپی اور انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔
مقدمے کی سماعت کے موقع پر فرٹسل نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کردیا۔ فرٹسل خاموش تھا اور اس نے اپنا چہرہ ایک نیلی فائل سے ڈھانپ رکھا تھا۔ فرٹسل کے ہمراہ چھ پولیس اہلکار تھے۔ ابتداء میں استغاثہ نے ایک بیان پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ یوزیف فرٹسل نے اپنی بیٹی کو ایک ’کھلونے‘ کے طور پر استعمال کیا اور یہ کہ اس کو اس بات پر کوئی پشیمانی یا پچھتاوا نہیں ہے۔ استغاثہ نے فرٹسل کو اس کے دو جڑواں بچّوں میں سے ایک کے قتل کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔
استغاثہ کے مطابق بچّے کے بیمار ہونے اور اس کو ہسپتال لے جانے کے حوالے سے اپنی بیٹی کی بارہا گزارشوں کے باوجود فرٹسل بچّے کو ہسپتال نہیں لے کر گیا تھا جو کہ قتل کے ذمرے میں آتا ہے۔
یوزیف فرٹسل نے عدالت کو بتایا کہ اس کا بچپن انتہائی مشکل اور پیچیدہ حالات میں گزرا تھا۔ ’میری ماں مجھے پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ بیالیس برس کی تھی جب میں پیدا ہوا۔ وہ میرے ساتھ بہت برا سلوک کرتی تھی اور مجھے بری طرح مارتی تھی‘
یوزیف فرٹسل گزشتہ برس اپریل سے پولیس کی حراست میں ہے۔ پولیس نے اس کی بیٹی الزابیتھ اور بچّوں کے بیانات پر مشتمل تیرہ گھنٹے کی ویڈیو بھی تیار کی ہے جو کہ مقدمے کی عدالتی سماعت کے دوران پیش کی جائے گی۔
اس مقدمے کی سماعت محض ایک ہفتہ تک جاری رہنے کا امکان ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سینٹ پوئلٹن کی عدالت اپنا فیصلہ آئندہ جمعے کے روز تک سنا دے گی۔