یوم نوجوان: پاکستانی نوجوانوں کے مسائل
12 اگست 2023خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی 27 فیصد آبادی 15سے 29 سال کے نوجوانوں پہ مشتمل ہے، جو دوہزار پچاس تک مذید بڑھ جائے گی۔ 2021 میں پاکستان میں کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح نو اشاریہ 41 فیصد تھی۔ پاکستان میں مرکزی سطح پر نوجوانوں میں نشے کے حوالے سے اعداد وشمار مرتب نہیں ہوتے لیکن اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2013 کی میں پاکستان میں چھ اشاریہ چار ملین افراد منشیات کا شکار تھے اور منشیات لینے والے نوجوانوں کی شرح 25 فیصد تھی۔ سب سے کم عمر منشیات لینے والوں کی عمر اوسطاﹰ 15 سے 19 برس تھی۔
بچوں کا عالمی دن، حقوق اطفال پر زور
’یوم اطفال‘ بھارت میں بچوں کا برا حال
مذہبی عدم رواداری کا بڑھتا ہوا رجحان، مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت بھی وہ مسائل ہیں جن کا پاکستانی نوجوان کو سامنا ہے۔ کچھ ماہرین جبری گمشدگی کو بھی پاکستان کے کچھ علاقوں کے نوجوانوں کے مسائل میں شامل کرتے ہیں۔
نوجوان اور بے روزگاری
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈیویلپمنٹ سیکٹر کے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کی وجہ سے صرف فیصل آباد میں سینکڑوں کی تعداد میں صنعتیں بند ہوئی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ لہذا اگر حکومت معیشت کو فروخت دینا چاہتی ہے تو پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا تاکہ نوجوانوں کو روزگار میسر آسکے۔‘‘
غیر معیاری تعلیم
یوتھ پارلیمنٹ کے بانی و چیئرمین رضوان جعفر کا کہنا ہے غیر معیاری تعلیم نوجوانوں کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اور بے روزگاری کا تعلق بھی اسی سے ہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پاکستان میں 40 ہزار سے زیادہ طالب علم کیمبرج امتحان دیتے ہیں۔ صرف انہی میں سے نوجوانوں کی ایک تعداد روزگار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے لیکن دو کروڑ سے زیادہ غریب بچہ جو اسکول سے باہر ہے یا جو اچھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتا، تو وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کیسے کر سکتا ہے اور جاب مارکیٹ میں کیسے اپنا حصہ لے سکتا ہے۔‘‘
مذہبی عدم رواداری
پاکستان میں انتہا پسندوں تنظیموں جیسے ٹی ٹی پی، داعش، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں مذہبی عدم رواداری اور انتہا پسندی دونوں میں اضافہ ہورہا ہے، جس کے شکار نوجوان ہو رہے ہیں۔
عامر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی 36 ہزار سے زیادہ مدارس ہیں، جس میں 25 لاکھ
سے زائد طالب علم پڑھتے ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے، جن کی عمریں 14 سے 30 کے درمیان ہے۔ ''ان بچوں میں پہلے ہی انتہا پسندانہ رجحانات ہیں اور اب سیاسی سطح پر ٹی ایل پی نے بھی نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوان ہنر اور تعلیم کو سمجھنے کے بجائے اس طرح کے نظریات کو سمجھنے میں وقت صرف کرتا ہے۔‘‘
مختلف علاقے کے نوجوان
خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کے مسائل کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ عامر حسین کا کہنا ہے کہ گلگت کے کچھ علاقوں میں تعلیم کی بہت بلند شرح ہے لیکن وہاں پہ خودکشیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے کیونکہ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں نوجوانوں میں باغیانہ خیالات پروان چڑھ رہے ہیں
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل ملک کے دوسرے علاقوں کے نوجوانوں کے مسائل سے یکسر مختلف ہیں۔ وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز سے تعلق رکھنے والی سابق طالب علم رہنما سیمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نوجوانوں کا سب سے اہم مسئلہ سیکیورٹی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو جبری طور پر گمشدہ کر دیا گیا ہے۔ ان کے لیے جو ان کے رشتہ دار مظاہرہ کر رہے ہیں، ان میں بھی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ جو نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں ان میں بھی ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ جو خوف کی وجہ سے اپنی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے وہ بھی نوجوان ہیں اور جنہوں نے اس مسئلے کی وجہ سے اپنی نوکریاں چھوڑ کے سڑکوں کا رخ کیا ہے وہ بھی نوجوان ہیں۔‘‘
ریاست نوجوانوں سے بات چیت کرے
سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ ریاست کو چاہیے کہ ان باغیانہ خیالات رکھنے والے نوجوانوں سے بات چیت کرے کیونکہ پوری دنیا میں مسائل کا حل بات چیت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں نوجوانوں میں بہت احساس بیگانگی بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ریاست کو پہل کرنی پڑے گی اور گمشدہ افراد جیسے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اعتماد کی فضا پیدا کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘‘
نوجوانوں کی سیاسی نمائندگی
کشور زہرہ کا کہنا تھا کہ طلبہ یونین پر پابندی سے بھی نوجوانوں کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ طلبہ یونین کی وجہ سے نوجوان سیاست میں آتے تھے۔ ''خود ایم کیو ایم طلبہ یونین سے نکل کر ایک سیاسی جماعت بنی۔ میرے خیال میں نہ صرف یہ کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جانا چاہیے بلکہ بلدیات، صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نوجوانوں کی نمائندگی کے لیے کوٹا مختص کیا جانا چاہیے۔‘‘
مسائل کا حل
عامر حسین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ''زیادہ تر بینک نوجوانوں کو قرضے فراہم نہیں کرتے کیونکہ صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور صنعت لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کر پا رہی۔ اس لیے جو نوجوان خود اپنے چھوٹے کاروبار کرنا چاہتے ہیں یا آئی ٹی میں کوئی فری لانس ورک کرنا چاہتے ہیں ان کی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور انہیں مالی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔‘‘
عامر حسین کے خیال میں پاکستان اپنے نوجوانوں کو انسانی سرمایہ یا ہیومن کیپیٹل کے طور پہ بھی استعمال کر سکتا ہے۔ '' کیوبا ہر سال میڈیکل کالجوں میں غریب ممالک کے طلبہ کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین اور دنیا کے کئی اور ممالک بھی مختلف شعبہ جات میں نوجوانوں کے لیے اسکالرشپ کا اعلان کرتے ہیں۔ حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اسکالرشپ دلوانے میں نوجوانوں کی معاونت کرنی چاہیے۔‘‘
عامر حسین کے مطابق آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں بہت سارے ہنر مند افراد کے لیے روزگار میسر ہے۔ ''اس کے علاوہ کووڈ کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں طبی عملے کی بھی شدید کمی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے شعبوں میں اپنے نوجوانوں کو تیار کر کے ان ممالک سے بات چیت کریں اور اس ہیومن کیپیٹل کو ایکسپورٹ کریں۔‘‘