یونانی جزیرے لیزبوس پر پولیس، تارکین وطن کے مابین تصادم
8 ستمبر 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جزیرے لیسبوس میں صورتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی، جب بڑی تعداد میں مہاجرین نے ایک مسافر کشتی میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اس فیری میں صرف ڈھائی ہزار افراد کی گنجائش تھی جبکہ مہاجرین اس سے کہیں زیادہ تھے۔ تاہم جیسے ہی پولیس نے ان افراد کو کشتی میں سوار ہونے سے روکا تو حالات بگڑ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر پولیس نے لاٹھی چارج بھی کیا۔ تاہم اس واقعے میں کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
حکام کے بقول فیری کو تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہی روانہ کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کشتی دارالحکومت ایتھنز کے قریب پیریئس کے بندرگاہی مقام پر آج منگل کے روز کسی وقت پہنچ رہی ہے۔
اسی دوران تقریباً سترہ سو تارکین وطن کو لے کر ایک اور فیری آج لیزبوس کے ساحلوں پر لنگر انداز ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق آج کل تقریباً چھ ہزار شامی مہاجرین اس جزیرے پر موجود ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ترکی کے راستے یونان پہنچے ہیں۔ اس دوران ایتھنز حکومت نے اعلان کیا ہے کہ مہاجرین کو ملک کے دیگر علاقوں تک پہنچانے کے لیے مزید دو بحری جہاز استعمال کیے جائیں گے۔
یونان میں متعدد جزائر پر مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ سے بحران کی سی صورتحال ہے۔ مقامی انتظامیہ کے پاس وسائل کی کمی کے باعث ان افراد کو شدید مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ یونان پہلے ہی گزشتہ کئی برسوں سے مالیاتی مسائل میں گھرا ہوا ہے اور اسی وجہ سے تارکین وطن کے لیے فوری اقدامات میں بھی اسے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کئی جزائر پر تو تارکین وطن کو سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ تک میسر نہیں ہے اور انہیں دن رات کھلے آسمان تلے بسر کرنا پڑ رہے ہیں۔ اس دوران ان کی کوشش ہے کہ وہ یونان سے نکل کر مقدونیہ اور پھر سربیا کی سرحدیں عبور کر کے کسی طرح یورپی یونین کے رکن ملک ہنگری پہنچ جائیں۔ ہنگری شینگن زون میں بھی شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد یہ مہاجرین مزید 25 یورپی ممالک میں بغیر ویزے اور سرحدوں پر نگرانی کے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ جرمنی اور ان ممالک میں جا کر سیاسی پناہ کی درخواستیں دینا چاہتے ہیں، جن کی اقتصادی حالت مضبوط ہے۔