یونان کا ایل ایم مہاجر کیمپ، اپنی مثال آپ
یونان کے علاقے پیلوپونیز نامی علاقے میں قائم ایل ایم مہاجر کیمپ اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں خانہ جنگی اور تشدد سے بھاگنے والے شامی اور دیگر مہاجرین کو پناہ تو ملی ہی ہے لیکن ان کی زندگی کی دیگر کئی مشکلیں بھی دور ہو گئی ہیں۔
گمشدہ رابطہ
ایک نوعمر مہاجر صبح سویرے اپنے موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے۔ اس مقام پر انٹرنیٹ ہی واحد ذریعہ ہے، جس کی مدد سے مہاجرین بیرونی دنیا سے رابطہ پیدا کر سکتے ہیں۔
بنیادی سہولیات
اس گاؤں میں واقع دو کمروں پر مشتمل ہر بنگلے میں کم ازکم آٹھ مہاجرین کو رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ایسی ہر رہائش گاہ میں ایک باتھ روم اور کچن ہے، جہاں ایک سِنک اور ایک چولہا بھی ہے۔ لیکن گرم پانی اورفرج کسی کو دستیاب نہیں ہے۔
شیر خوار کے ساتھ
شامی مہاجر خاتون رانی موسیٰ کی عمر ستائیس برس ہے۔ اپنے اس بچے کے پیدا ہوتے ہی وہ بذریعہ ترکی یونان پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس بچے کی عمر صرف آٹھ ماہ ہے۔
سکون کا ایک لمحہ
مہاجر خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ مہاجر کیمپ سے نکل کر قریبی مقامات کی سیر کرنے بھی جاتی ہیں۔ اس مشکل وقت کے دوران یہی لمحات ہی ان کو سکون و آرام مہیا کرتے ہیں۔
مستقبل کی منصوبہ بندی
ایل ایم گاؤں میں سکونت پذیر مہاجرین یہاں سے آگے وسطی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ ان کے راستے مسدود ہیں لیکن وہ پر عزم ہیں۔ اس مقام پر تقریبا ساٹھ مرد اپنے اپنے کنبوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
شام کا وقت
خواتین اور بچے شام کے وقت اکثر اپنی رہائش گاہوں سے نکل کر گپ شپ کرتے ہیں۔ اس کیمپ میں تین سو چالیس افراد آباد کیے گئے ہیں، جن میں دو سو نو مہاجرین کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہیں جبکہ 69 خواتین ہیں۔
روزمرہ کی زندگی
کوئی بھی مشکل ہو لیکن روزمرہ کی زندگی تو چلتی رہتی ہے۔ ایک شامی مہاجر خاتون نے اپنے چھ ماہ کے بچے کو گلے سے لگا رکھا ہے۔ یہاں کئی خواتین ایسی بھی ہیں، جو حاملہ ہیں۔
خریداری بھی ضروری ہے
طارق الفلاح میرسینی میں واقع ایک چھوٹی سی سپر مارکیٹ میں خریداری کرنے گیا تو اس کے بیٹے بھی اس کے ہمراہ ہو لیے۔ بہت سے مہاجرین روزمرہ کا اضافی سامان مقامی دوکانوں سے خریدتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں مقامی کاروباری لوگوں کو مالی فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
دیکھا بھالا چہرہ
یونانی میونسپلٹی آندرہ ویدا کے میئر نبیل مورانت ہیں، جو بنیادی طور پر شام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یونان کے ایسے پہلے میئر ہیں، جو یونانی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل اس مہاجر کیمپ کا قیام ان کا منصوبہ تھا لیکن اس کی لوکل کونسل نے بھرپور حمایت کی۔
فراغت کے ساتھ ساتھ کام کاج بھی
ایک بنگلہ دیشی مہاجر اسٹرابری کے ایک فارم پر کام کرتا ہے۔ یہ فارم ایل ایم گاؤں سے تھوڑی ہی دورواقع ہے۔ یہاں کئی ایسے مہاجر کام کرتے ہیں جن کا تعلق جنوبی ایشیائی ممالک سے ہے۔ یہ یہاں آٹھ گھنٹے کام کر کے بائیس تا پچیس یورو کما لیتے ہیں۔
مقامی آبادی کی مدد
گیورگس اگیلیپولس (درمیان میں) میرسینی کے مقامی رہائشی ہیں۔ یہ فارغ وقت میں بطور رضاکارمہاجرین کی امداد کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیمپ کے قیام کے وقت مقامی آبادی کی مخالفت اس وقت ختم ہو گئی تھی، جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تمام مہاجرین کنبوں والے ہیں۔