یونان سیاحت کے نشیب و فراز سے گزرتا ہوا اپنی تاریخ اور تہذیب کو فراموش کر چکا تھا کہ اِٹلی میں ریناساں کی تحریک نے اِس کے فلسفے، ڈرامے، شاعری اور اس کی تاریخی یادگاروں کو دوبارہ سے زندہ کیا۔ یونان کی تہذیب کو منظرِ عام پر لانے میں سب سے بڑا حصّہ تاریخ نویسی کا ہے، جس میں اس کی ابتداء پر تحقیق کی گئی۔ اس کے بعد اَرکیالوجی کے ماہرین نے تاریخی عمارتوں اور یادگاروں کو گمنامی سے نکال کر محفوظ کیا۔ میوزیم میں یونانی تہذیب کے نوادرات کی نمائش کی گئی۔ یہ نمائشیں یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی کی گئیں۔ اس نے یونان کی تہذیب کو دنیا میں روشناس کرایا۔
یونان میں جب شہری ریاستیں تھیں تو ان میں سب سے مشہور ایتھز کی ریاست تھی۔ اس میں "Panthion” کی عمارت میں دیوی دیوتاؤں کے بُت رکھے ہوئے تھے۔ اس لیے یہ یونانی کلچر میں مُقدّس تھی۔ جب چوتھی صدی قبل مسیح میں ایرانیوں نے ایتھز پر حملہ کیا تو اس کے بادشاہ Xerxes نے "Pantheon” میں توڑ پھوڑ کی۔ جب Pesicles ایتھز کی جمہوریہ کا سربراہ بنا تو اس نے "Pantheon” کی مرمت کرا کے اس کی شان و شوکت کو بحال کیا۔ یونان کی شہری ریاستیں اس وقت بھی مُتاثر ہوئیں جب میسوڈونیا نے حملہ کر کے شہری ریاستوں کو ختم کیا اور یونان کو مُتحد کیا۔ میسوڈونیا کے خلاف مُذاحمت کی تحریک چلی جو ناکام ہوئی اور اُنھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ اسکندر یونانی نہیں ہے اور اس سے ہمارا کوئی تعلق بھی نہیں۔
رومی عہد میں یونان اُن کی سلطنت کا حصّہ بن گیا تھا، مگر رومی اُس کی تہذیب سے بڑے مُتاثر تھے۔ اس لیے انھوں نے اُن کی تاریخی یادگاروں کو محفوظ رکھا۔ پانچویں صدی عیسوی میں بازنطینی حکمران Justinian نے افلاطون کی اکیڈمی کو بند کر کے فلسفے کی جگہ مذہب کو فروغ دیا۔ 1456ء میں جب ترکوں نے یونان پر قبضہ کیا تو اس دوران یونان میں سیاسی انتشار پھیلا اور اُس کی تاریخی یادگاریں کھنڈر بنتی چلی گئیں۔
ان حالات میں یورپی اقوام نے یونانی تہذیب کو اپنے میں شامل کر کے اُس کے احیاء کی کوششیں کیں۔ مثلاً بویریا کے بادشاہ Otto نے اسپارٹا کے کھنڈرات میں ایک نیا شہر آباد کیا تا کہ اس کی پرانی تہذیب کو واپس لایا جائے۔ اس پر کچھ لوگوں کا اعتراض تھا کہ تاریخ کو کھنڈرات ہی میں رہنے دیا جائے اور اُن پر نئے غلاف نہ چڑھائیں جائیں۔ دوسرا اہم شخص Henrich Schliemann تھا جس نے Troy کا شہر دریافت کیا تھا۔ اسی نے یونان کی قدیم ترین تہذیب Mycenae اور Agamemnon کی قبر کو بھی تلاش کیا۔
اس کے بعد یونان میں امریکی، جرمن، فرانسیسی اور انگریز ماہر آثاِ قدیمہ آئے اور قدیم یادگاروں کو ڈھونڈ کر اُن کی تاریخی حیثیت کو بحال کیا۔ جرمنوں نے اَولمپک کے میدان میں کھُدائی کر کے اُس کے کھیلوں کے بارے میں تحقیق کی۔ جب کہ فرانسیسیوں نے Apollo مندر کو دریافت کر کے اُس کی اہمیت کو واضح کیا۔
تھرماپولی کی جنگ میں مرنے والے تین سو سپاہیوں کی اجتماعی قبر مُقدس زیارت بن گئی۔ اسپارٹا کے بادشاہ Leonard جو ایرانیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا تھا اُس کے مجسمے پورے یونان میں جگہ جگہ رکھے گئے تھے۔ تا کہ لوگوں میں فخر کے جذبات پیدا ہوں۔
یونان کی قومی ریاست آزادی کے بعد اپنی تاریخی یادگاروں کے بارے میں بہت حساس ہو گئی تھی۔ قوم پرستی کے جذبات نے ان تاریخی یادگاروں کو اُن کی روزمرّہ کی زندگی کا حصہ بنا دیا تھا۔ کیونکہ یونان کے بہت سے نوادرات اسمگل ہو رہے تھے۔ اس لیے اُس کی روک تھام کے لیے ریاست کی جانب سے کئی قوانین بنائے گئے، اور یہ پابندیاں عائد کر دیں گئیں کہ یونانی نوادرات کو مُلک ہی میں محفوظ رکھا جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونانی نوادرات بڑی تعداد میں اسمگل ہونے کے باوجود محفوظ رہے، اور یونان کی تاریخی شناخت کا باعث بنے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔