یوکرائنی بحران: منسک میں امن معاہدہ طے پا گیا
12 فروری 2015مشرقی یوکرائن کے تنازعے کے حل کے لیے چار سربراہان مملکت و حکومت کے مذاکرات میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بیلاروس کے دارالحکومت مِنسک میں ہونے والے اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن، یوکرائنی صدر پیٹرو پوروشینکو، جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ گزشتہ شام (بُدھ) سے مذاکراتی سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ مذاکراتی سلسلہ تقریباً سولہ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس میں مشرقی یوکرائن کے بحران کے خاتمے کے لیے ایک جامع امن ڈیل کو حتمی شکل دی گئی ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ جنگ بندی ہفتہ کو نصف شب سے شروع ہو جائے گی۔ پوٹن کے مطابق باغیوں کے علاقے کو خصوصی حیثیت دینے کا معاملہ بھی طے پا گیا ہے۔ پوٹن نے رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزرنے والی رات اُن کی زندگی کی کوئی بہتر رات نہیں تھی لیکن صبح بہت اچھی رہی کیونکہ تمام تر مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود سبھی ایک معاہدے پر متفق ہو گئے۔ پوٹن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بارڈر کنٹرول اور انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کو بھی اس ڈیل میں شامل کیا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر اولانڈ نے اس معاہدے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور چانسلر میرکل جنگ بندی کی ڈیل کی نگرانی روسی اور یوکرائنی صدور کے توسط سے کریں گے۔ اولانڈ نے یوکرائنی تنازعے کے خاتمے کے لیے نئی فائربندی ڈیل کو سارے یورپ کے لیے امن و سکون کے مساوی قرار دیا۔ اولانڈ نے بھی جنگ بندی کے علاوہ یوکرائنی بحران کے حوالے سے ایک جامع سیاسی مفاہمت کی تصدیق کی ہے۔ اولانڈ کے مطابق جنگ بندی کے علاوہ یوکرائنی تنازعے کے حل کے لیے تمام اختلافی معاملات پر گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ڈیل میں سرحدوں کی نگرانی کے عمل کے ساتھ ساتھ علاقے کو کئی معاملات میں بااختیار کرتے ہوئے مرکز سے اجازت نہیں لینا ہو گی۔
فرانسیسی صدر کے مطابق متنازعہ علاقوں سے بھاری ہتھیاروں کی واپسی کے ساتھ اقتصادی سرگرمیوں کی بحالی کا پروگرام شروع کر دیا جائے گا۔ ڈیل کے حوالے سے اولانڈ نے باغیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر صدر پوٹن کی تعریف بھی کی۔ اس امن ڈیل کی تصدیق جرمن وفد کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ مِنسک میں یوکرائنی بحران سے متعلق بات چیت کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے شروع کیا تھا۔ وہ اِس سلسلے میں چند روز قبل یوکرائن اور روس بھی گئے تھے۔
دوسری جانب یوکرائنی صدر پوروشینکو نے اِس کی تردید کی ہے کہ مشرقی یوکرائن کے باغی علاقوں کو خود مختار کرنے پر کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ یوکرائنی صدر کے مطابق معاہدے میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ یوکرائن کی حدود سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں گی۔ یوکرائنی صدر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت میں انخلا اور سرنڈر کے حوالے سے ناقابلِ قبول تجاویز بھی سامنے آئیں لیکن کسی الٹی میٹم کو قبول نہیں کیا گیا اور جنگ بندی بغیر کسی شرط پر شروع کرنے کے اصولی مؤقف کو برقرار رکھا گیا۔ یوکرائنی اور روسی صدور کے مطابق روس نواز باغیوں نے بھی مشرقی یوکرائن کے تنازعے کے حل کے لیے روڈ میپ پر دستخط کر دیے ہیں۔