یوکرائن میں امن لانے کی کوشش کریں گے، ٹرمپ
5 فروری 2017صدر ٹرمپ نے اپنے یوکرائنی ہم منصب پیٹرو پوروشینکو کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ کییف اور ماسکو حکومتوں کے ساتھ رابطے رکھتے ہوئے مشرقی یوکرائن کے مسلح تنازعے کے پرامن حل کے حصول کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد یوکرائنی صدر کا ان سے یہ پہلا رابطہ ہے۔ یہ رابطہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب متنازعہ مشرقی یوکرائنی علاقے میں گزشتہ ہفتے کے دوران پینتیس انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ نے پیٹرو پوروشینکو پر واضح کیا کہ وہ روس کے علاوہ اِس تنازعے کے بقیہ فریقوں کے ساتھ مشاورت کرتے سب کے ساتھ تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب ٹرمپ کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں۔
امریکی صدر کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے یوکرائنی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں واضح کیا گیا کہ فریقین نے اس گفتگو کے دوران مشرقی یوکرائن میں پرتشدد واقعات میں اضافے اور انسانی صورت حال میں مسلسل گراوٹ پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ کییف سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں صدور نے نئی انتظامیہ کے ساتھ ہر سطح پر مذاکراتی عمل جاری رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیٹرو پوروشینکو نے جو امیدیں سابق امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے ساتھ وابستہ کی تھیں، وہ بظاہر فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکی تھیں۔ امریکی صدر نے اٹھائیس جنوری کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔ ٹرمپ اور پوٹن کی گفتگو کو ماسکو اور واشنگٹن نے مثبت اور تعمیری قرار دیا تھا۔
اُدھر مشرقی یوکرائن کے باغیوں نے کییف اور ماسکو حکومتوں کے ساتھ گزشتہ بدھ کو ایک نئی فائربندی شروع کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ حالیہ تشدد کے مرکز اَودیفکا سے بھاری ہتھیاروں کو آج اتوار، پانچ فروری تک اگلے محاذ سے پیچھے منتقل کر دیا جائے گا۔ زمینی حالات یہ ہیں کہ اَودیفکا میں فائربندی کے سلسلے میں فائرنگ ابھی تک بند نہیں ہوئی اور کچھ ہی بھاری ہتھیاروں کو واپس لے جایا گیا ہے۔ مجموعی طور پر علاقے میں صورت حال اب بھی کشیدہ ہے۔