یوکرائن میں روس کی ’تازہ فوج کشی‘، عالمی برداری کی سخت مذمت
13 نومبر 2014مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے بدھ کے دن کہا ہے کہ روس نے مشرقی یوکرائن میں ٹینک، بھاری اسلحہ اور اپنی فوج داخل کر دی ہے۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر جنرل فلپ ریڈلوَ کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ دو دنوں سے یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روسی ٹینک، ایئرڈیفنس سسٹمز، آرٹلری اور فوج کو داخل ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔
بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس امریکی جنرل نے مزید کہا کہ سلامتی اور تعاون کے یورپی ادارے (او ایس سی ای) بھی اس فوج کشی کو رپورٹ کر چکا ہے۔ او ایس سی ای کے مطابق اس کے معائنہ کاروں نے خطے میں بڑے پیمانے پر فوجی پیش قدمی نوٹ کی ہے۔ تاہم اس ادارے نے اس حوالے سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔
ادھر روسی وزارت دفاع نے فوری طورپر ایسی تمام خبروں کو مسترد کر دیا ہے۔ روسی وزیر دفاع نے نیٹو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ روس مخالف جذبات بھڑکانے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس تناظر میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیش نظر ماسکو نے کریمیا میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ ضرور کیا ہے۔
ایک اور پیش رفت میں یوکرائنی وزیر دفاع اسٹیفن پولٹوراک نے کییف میں کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد کہا ہے کہ وہ مکمل جنگ کے لیے تیار ہیں۔ مقامی میڈیا نے اسٹیفن پولٹوراک کے حوالے سے بتایا ہے کہ فی الحال ملکی مسلح فوجی دستوں کا اولین مقصد کسی جنگی کارروائی کے لیے تیار رہنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس نواز باغی مشرقی علاقوں میں طاقت جمع کر رہے ہیں۔
یوکرائن میں تازہ روسی فوج کشی کی خبروں کے بعد امریکا اور نیٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا، جس میں گزشتہ روز اس بڑھتے ہوئے تناؤ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل ژینس آندریاس ٹوائے برگ فرانڈزن نے مشرقی یوکرائن میں کشیدگی میں مزید اضافے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں ایک مرتبہ پھر بڑے پیمانے پر لڑائی شروع ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے یوکرائن تنازعے کے حل کے لیے ماسکو کا مؤقف دہراتے ہوئےکییف اور باغیوں کے مابین ’پائیدار اور براہ راست‘ مذاکرات پر زور دیا ہے۔