1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یوکرائن کو ہتھیار دے بھی سکتے ہیں‘، اوباما

امجد علی9 فروری 2015

آج وائٹ ہاؤس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد امریکی صدر باراک اوباما نے ایک مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوکرائن میں روسی جارحیت نے امریکا اور یورپ کے اتحاد کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EYmB
تصویر: S. Loeb/AFP/K. Lamarque

اوباما نے خبردار کیا کہ مغربی دنیا روس کو ’بندوق کی نوک پر‘ یورپ کی سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اوباما نے کہا:’’ہم اس تنازعے کا کوئی سفارتی حل تلاش کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے لیکن جہاں سفارتی کوششیں جاری رہیں گی، وہیں ہمارے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اکیس ویں صدی میں ہم خاموش تماشائی بنے اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ بندوق کی نوک پر یورپ میں سرحدی لائنیں نئے سرے سے کھینچی جائیں۔‘‘

اوباما نے یہ بھی کہا کہ یہی صورتِ حال جاری رہنے کی صورت میں ’سیاسی ہی نہیں، اقتصادی طور پر بھی روس کی تنہائی بڑھتی جائے گی‘۔ اوباما کا کہنا تھا کہ اگرچہ ابھی اُنہوں نے یوکرائن کو ہلاکت خیز ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے تاہم اُن کی انتظامیہ ’تمام تر امکانات‘ پر غور جاری رکھے ہوئے ہے۔

اسی مشترکہ پریس کانفرنس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ مغربی دنیا کے لیے اس وقت یہ بات بہت زیادہ اہم ہے کہ وہ یوکرائن کا ساتھ دے:’’اگر ہم نے ممالک کی علاقائی سالمیت کے اصولوں کو ترک کر دیا تو ہم یورپ میں امن و امان کا نظام برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘‘

Merkel bei Obama 09.02.2015
امریکی صدر کے ساتھ اوول دفتر میں چانسلر میرکل نے ملاقات کیتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

اس ملاقات سے پہلے بتایا گیا تھا کہ میرکل اور اوباما کے درمیان اس بات پر غالباً اختلافِ رائے پایا جاتا ہے کہ آیا باغیوں کے ساتھ لڑائی میں دفاع کے لیے یوکرائن کو ہتھیار فراہم کیے جائیں۔ اوباما بھی پہلے یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی کے خلاف تھے تاہم اب یہ خبریں آ رہی تھیں کہ گزشتہ کچھ روز کے دوران مشرقی یوکرائن میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیشِ نظر وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور یوکرائن کو ہتھیاروں سے لیس کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ اختلافِ رائے ایک سیاسی حربہ بھی ہو سکتا ہے، جس کا مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ روسی صدر پوٹن پر مجوزہ امن منصوبہ قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔

اس ملاقات میں میرکل اور اوباما نے اُس امن منصوبے کو بحال کرنے پر بھی بات کی، جس پر گزشتہ سال ستمبر میں بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں اتفاقِ رائے ہوا تھا۔ اوباما اور میرکل کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت عمل میں آئی ہے، جب جرمنی اور فرانس اسی ہفتے بدھ کے روز بیلا روس کے دارالحکومت منسک میں ایک بار پھر روس اور یوکرائن کی قیادت سے ملنے والے ہیں۔ میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے گزشتہ ہفتے یوکرائن کی قیادت کے ساتھ ساتھ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بھی کییف اور ماسکو جا کر ملاقات کی تھی۔

Merkel und Hollande zu Gesprächen mit Putin in Moskau
گزشتہ جمعے کو فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر نے پوٹن سے ماسکو میں ملاقات کی تھیتصویر: Reuters/Ria Novosti/M.Klimentyev

میرکل اور اولاند اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ یوکرائن کے تنازعے کا بہر صورت کوئی سفارتی حل تلاش کیا جائے اور یہ کہ اگر واشنگٹن حکومت کی جانب سے کییف حکومت کو ہتھیار فراہم کر دیے گئے تو ممکنہ طور پر امریکا اور ر وس کے درمیان ایک طرح کی پراکسی وار شروع ہو جائے گی۔ میرکل نے اوباما کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایک بار پھر یوکرائن کے تنازعے کے سفارتی حل پر زور دیا۔

اتوار کو جرمن شہر میونخ میں اختتام کو پہنچنے والی سکیورٹی کانفرنس میں شریک امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی یہ کہتے ہوئے سفارتی حل کی حمایت کی تھی کہ وہ کییف حکومت کو ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے سے شک و شبے کا شکار ہیں۔

میونخ سکیورٹی کانفرنس ہی میں نائب امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا:’’ہم سلامتی کے شعبے میں یوکرائن کو امداد فراہم کرتے رہیں گے، جنگ کو ہوا دینے کے لیے نہیں بلکہ یوکرائن کو اس قابل بنانے کے لیے کہ وہ اپنا دفاع کر سکے۔‘‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اپریل میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے مشرقی یوکرائن میں پانچ ہزار تین سو سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران خونریزی میں مزید اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔

جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، میرکل نے اوباما کے ساتھ اپنی اس ملاقات میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے اپنا فون سنے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ اسی حوالے سے مشترکہ پریس کانفرنس میں اوباما کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں منظرِ عام پر آنے کے بعد کہ امریکا کی جانب سے غیر ملکی رہنماؤں کی جاسوسی سے ان ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے ہیں، وہ ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ جرمنی اور دنیا میں دیگر ساتھی ممالک کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔