یوکرینی جنگ کے چھ ماہ مکمل، کس کی جیت، کس کی ہار؟
24 اگست 2022یوکرین پر روسی حملہ بڑی حد تک پسپا ہو چکا ہے اور یوکرینی فوج کی طرف سے روسی فوجی صفوں کے پیچھے بشمول روس کے زیر تسلط کریمیا کے علاقے میں اہم فوجی اہداف کو نشانے بنانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک پسپا فوجی مہم جوئی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اس جنگ کے جسے وہ 'خصوصی فوجی آپریشن‘ قرار دیتے ہیں، آغاز پر یوکرینی فوجیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ پوٹن نے یہ بیان اپنے اس یقین کے پیش نظر دیا تھا کہ یوکرینی عوام روسی حملہ آوروں کو خوش آمدید کہیں گی۔ روس کے اتحادی ملک بیلاروس سے یوکرین کے محاذ جنگ پر آنے والے روسی فوجی تو اپنے ہمراہ وہ فوجی یونیفارم بھی لائے تھے جو ان کے خیال میں انہیں اپنی فوری فتح کی خوشی میں منعقدہ پریڈ میں پہننا تھے۔ لیکن مغربی ممالک کی فوجی امداد سے لیس یوکرینی فوج کی زبردست مزاحمت نے روسی فوجیوں کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
یوکرین پر حملے کے آغاز میں کییف کے قرب وجوار میں ایئر فیلڈز پر قبضے کے لیے اتارے جانے والے روسی چھاتہ بردار فوجیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ کییف کو جانے والی مرکزی شاہراہ پر مسلح روسی فوجی قافلوں کو یوکرینی توپ خانے کی گولہ باری نے شدید نقصان پہنچایا۔ یوکرینی ایئر بیسز اور ائیر ڈیفنس پر بے شمار حملوں کے باوجود روسی فضائیہ یوکرینی فضاؤں کا کنٹرول حاصل میں ناکام رہی اور اسے بھاری نقصانات بھی اٹھانا پڑے جس کی وجہ سے اس کی اپنی زمینی فوج کومعاونت مہیا کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی۔
اس صورتحال کے سبب جنگ کے پہلے ہی ماہ میں روس کو اپنی ناکام جنگی حکمت عملی کے خاموش اعتراف کے طور پر کییف، خارکیف، چر نییوو اور دوسرے بڑے شہروں کے نزدیک سے اپنی فوجی واپس بلانا پڑے تھے۔
بدلتے ہوئے جنگی میدان
کریملن نے اس کے بعد اپنا فوکس یوکرین کے مشرقی صنعتی علاقے ڈونباس پر مرکوز کر دیا۔ اس علاقے میں روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند 2014 ء سے یوکرینی فوج سے لڑ رہے ہیں۔ روسی فوج نے اپنے توپ خانے کی برتری پر انحصار کرتے ہوئے سخت لڑائیوں کے بعد اس تباہ حال علاقے میں کچھ پیش قدمی کی۔ بحیرہ آزوف پر ماریوپول کی تزویراتی بندرگاہ جو یوکرائنی مزاحمت کی علامت بن گئی تھی مئی میں تقریبا تین ماہ کے محاصرے کے بعد روسی قبضے میں چلی گئی۔ یہاں پر ہونے والی لڑائی نے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یوکرین کی دیوہیکل آزوفسٹال اسٹیل مل میں مورچہ بند ماریوپول کے 2400 سے زائد محافظوں نے روسی محاصرے کے اختتام پر ہتھیار ڈال دیے اور انہیں قیدی بنا لیا گیا۔
ان میں سے کم ازکم 53 گزشتہ ماہ مشرقی یوکرین کے ایک جیل میں ہونے والے دھماکے میں مارے گئے تھے۔ ماسکو اور کییف اس دھماکے کے لیے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ روسیوں نے ڈونباس کے دو صوبوں میں سے ایک لوہانسک پر مکمل قبضہ کر لیا ہے اور دوسرےصوبے ڈونیٹسک کے نصف سے کچھ زیادہ حصے پر بھی قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ روس اس وقت یوکرین کے 20 فیصد علاقے پر قابض ہے۔ کییف میں قائم تھنک ٹینک رزمکوف سینٹر کے فوجی امور کے ایک تجزیہ کار مائیکولا سنہورووسکی کے مطابق، ''پوٹن مذاکرات میں اپنے مؤقف کی مضبوطی کے لیے یوکرینی علاقے کا ایک کے بعد ایک ٹکڑا کاٹنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
سنہورووسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین کے نام ان (پوٹن) کا پیغام یہ ہے کہ اگر آپ اب بات چیت کے لیے نہیں بیٹھتے تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور ہم آپ کے مزید علاقے پر قبضہ کر لیں گے اور آپ کے مزید لوگوں کو ہلاک کر دیں گے۔ وہ نہ صرف بیرونی بلکہ یوکرینی حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روسی فوجیوں نے تنازعے کے آغاز میں کریمیا کے شمال میں واقع خیرسون اور اس کے پڑوسی علاقے زاپوریژیا کے کچھ حصے پر قبضہ کر کے وہاں ماسکو نواز انتظامیہ کی تعیناتی کے علاوہ اپنی کرنسی متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ روسی پاسپورٹ کا اجراء بھی شروع کر دیا ہے۔ ماسکو نے ان علاقوں کے روس کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کرنے کے لئے ریفرنڈم کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ لیکن یوکرینی افواج نے حال ہی میں کچھ علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ انہوں نے پلوں پر حملےکیے اور روسی اسلحے کے ڈپوؤں کو نشانہ بنایا۔ دریں اثنا، دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر روس کے زیر قبضہ یورپ کے سب سے بڑے زاپوریژیا جوہری بجلی گھر پر گولہ باری کے الزامات لگائے ہیں۔ شیلنگ کے باعث یہاں جوہری تباہی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
یوکرین کی کامیابی
امریکی ہیمارس راکٹ سسٹم سمیت مغربی ہتھیاروں نے یوکرین کی فوجی صلاحیت میں اضافہ کر کے اسے روسی گولہ بارود کے ذخائر، پلوں اور دیگر اہم تنصیبات کو ہدف بنانے کا اہل بنا دیا ہے۔ اپریل میں یوکرین کی ایک بڑی علامتی فتح اس وقت ہوئی جب بحیرہ اسود میں روس کا فلیگ شپ بحری جہاز موسکووا مبینہ طور پر ایک یوکرینی میزائل لگنے سے تباہ ہوکر ڈوب گیا۔ اس کارروائی سے روسی تفاخر کو شدید دھچکا پہنچا اور اسےمجبور ہو کر بحری سرگرمیاں محدود کرنا پڑیں۔
اس کے علاوہ یوکرین کی ایک اور بڑی کامیابی اسنیک آئی لینڈ کے اہم جزیرے سے روسی فوجوں کی پسپائی تھی۔ یہ جزیرہ بندر گاہی شہر اوڈیسا کے قریب بحری جہازوں کی آمدورفت کے راستے پر واقع ہے۔ یوکرینی فوج کی مسلسل بمباری نے روسیوں کو یہ جزیرہ خالی کرنے پر مجبور کیا۔ اس جزیرے پر روسی قبضہ ختم ہونے سے یہاں سے یوکرین پر حملوں کا خطرہ ٹلنے کے ساتھ ساتھ یوکرینی اناج کے دوسرے ملکوں کو ترسیل بھی قدرے محفوظ ہو گئی ہے۔
روس کو رواں ماہ اس وقت مزید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب کریمیا میں ان کے ایک ہوائی اڈے اور گولہ بارود کے ڈپو کو دھماکوں کے ایک سلسلے کا سامنا کرنا پڑا۔کییف نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم ان میں دھماکوں میں یوکرین کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ روس نے ایک دھماکے کے پیچھے تخریب کاری کے عمل کو تسلیم کیا جبکہ دیگر کو اپنے اہلکاروں کی لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیا۔ ان دھماکوں کے بعد یہاں ڈرون حملے بھی کیے گئے، جو اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ یوکرینی فوج کہیں پر بھی روسی فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انسانی جانوں کا نقصان
روس اور یوکرین دونوں زیادہ تر اپنے نقصانات کا ذکر کرنے سے گریز اور دوسرے کے ہاں ہونے والی ہلاکتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یوکرینی فوج کے سربراہ کے مطابق اب تک کی لڑائی میں نو ہزار یوکرینی فوجی مارے گئے ہیں۔ روسی وزارت دفاع نے جنگ کا پہلا مہینہ مکمل ہونے پر 25 مارچ کو جو اعدادوشمار پیش کیے تھے ان کے مطابق 1350 روسی فوجی ہلاک اور 3800 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم مغربی جائزوں کے مطابق یوکرینی جنگ میں ہلاک ہونے والے روسی فوجیوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے گزشتہ ہفتےکہا تھا کہ اب تک 70 سے 80 ہزار روسی فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اب تک ساڑھے پانچ ہزار سے زائد عام شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ کی ہیں۔ اس حملے نے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد پناہ گزینوں کا سب سے بڑا بحران پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ایک تہائی باشندے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 66 لاکھ سے زیادہ داخلی طور پر بے گھر ہوئے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں یوکرینی باشندے یورپ کے دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
مسقبل میں کیا ہوگا؟
جنگ کے نتائج کا انحصار روس اور یوکرین کی اضافی وسائل اکٹھا کرنے کی اہلیت پر ہوگا۔ یوکرین نے 10 لاکھ کی تعداد پر مشتمل فوج تشکیل دینےکے ہدف کا اعلان کیا ہے لیکن روس نے رضاکاروں کے ایک محدود دستے پر بھی انحصار جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ کریملن کے اس خدشے کی عکاسی کرتا ہے کہ بڑے پیمانے پر متحرک ہونے سے عدم اطمینان کو ہوا مل سکتی ہے اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
ماسکو نے عبوری اقدامات کا انتخاب کیا ہے۔ ان اقدامات کے تحت لوگوں کو فوج کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش اور واگنر گروپ جیسے کرائے کے فوجی فراہم کرنے والے اداروں کے علاوہ کچھ قیدیوں کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ ان میں سے نصف اقدامات ایسے ہیں جو کسی بھی بڑے جارحانہ کارروائی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
یوکرین کے پاس بھی اپنی کسی علاقے کی فوری بحالی کے لیے وسائل کی کمی ہے۔ ریٹائرڈ برطانوی جنرل رچرڈ بیرنس کے مطابق یوکرین کو ایک ایسی فوج اکٹھی کرنے میں ایک سال لگ سکتا ہے جو روسیوں کو اپنے علاقے سے نکال باہر کرے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ''یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب مغرب سیاسی ارادہ، تقریباﹰ پانچ سے چھ ارب ڈالر ماہانہ، طویل فاصلے تک مار کرنے والے توپ خانے کے ہتھیاروں کےساتھ گولہ بارود اور پھر لاجسٹک اور میڈیکل سپورٹ مہیا کر ے تو یوکرین ایک ملین فوج ترتیب دے سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور روس پر عائد پابندیوں سے پیدا ہونے والے دیگر اقتصادی چیلنجوں کے باوجود مغرب کو طویل عرصے تک یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ش ر⁄ ا ب ا (ایسوسی ایٹڈ پریس)