یوکرین جنگ امریکا اور جرمنی کو قریب لے آئی
18 جون 2022یوکرین میں روسی جارحیت کی وجہ سے مغربی اتحادیوں میں ایک نئی صف آرائی دیکھی جا رہی ہے۔ اس جنگ نے جہاں متعدد مغربی ممالک کو متحد کیا ہے، وہیں روس کے خطرے نے امریکا اور جرمنی کے مابین کشیدہ تعلقات میں بھی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ روس کی طرف سے لاحق خطرات، مشترکہ جیو پولیٹیکل وژن اور مفادات کی وجہ سے امریکا اور یورپ کے مابین زیادہ گرم جوشی کی امید کی جا سکتی ہے۔
بالخصوص جرمنی اور امریکا کے باہمی تعلقات دو دہائیوں بعد اپنی بہترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ عراق جنگ، جاسوسی کے انکشافات اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی تھی۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سابق اہلکار اور برلن میں امریکن اکیڈمی کے صدر ڈینئیل بینجمن کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے اٹلانٹک الائینس میں ایک نیا اتحاد نظر آ رہا ہے اور اس صورتحال میں امریکا اور جرمنی کے تعلقات میں بہتری کوئی استثنیٰ نہیں ہیں۔
ڈینئیل بینجمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکا کی نئی انتظامیہ کی کوشش تھی کے اپنے پرانے اتحادی ملک جرمنی کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے اور اس میں روس کی طرف سے یوکرین پر حملے نے مدد ہی کی ہے۔
مشترکہ مقصد روسی جارحیت کی مخالفت
مغربی اتحاد کا ایک مشترکہ مقصد روسی جارحیت کی مذمت کرنا بھی ہے۔ امریکی حکام اس وقت بہت خوش ہوئے تھے، جب جرمن چانسلر اولاف شولس نے نارتھ اسٹریم پائپ لائن کو منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس منصوبے کے تحت جرمن حکومت روس سے گیس خریدنا چاہتی تھی تاہم امریکی صدر جو بائیڈن نے اسے ‘یورپ کے لیے ایک بری ڈیل‘ قرار دیا تھا۔
اب جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ کے حوالے سے روس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ ختم کر کے ملکی ضروریات کی گیس امریکا سے منگوائی جائے گی۔
دریں اثنا یہ مغربی اتحاد روس کی طاقت ور فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر یوکرین کو بھاری اسلحہ اور جدید عسکری سازوسامان بھی مہیا کر رہا ہے۔
سروے کے نتائج
ایک سروے کے مطابق ہر دس میں سے چھ جرمن اور امریکی متفق ہیں کہ شولس اور بائیڈن کی حکومتوں کی وجہ سے جرمن اور امریکی تعلقات میں بہتری آئی ہے۔
غیر سرکاری ادارے اٹلانٹک بروکے کے اس سروے میں شامل اکہتر فیصد امریکیوں جبکہ اکاسی فیصد جرمنوں نے یہ بھی کہا کہ ان دونوں ممالک کے تعلقات حکومتی کے بجائے ریاستی سطح پر مضبوط ہونا چاہییں۔
رائے دہندگان کے مطابق یہ بات خوش کن ہے کہ بائیڈن اور شولس دونوں ممالک کے مابین قربت کا سبب بنے ہیں تاہم ممالک کے مابین خوشگوار اور پراعتماد تعلقات شخصیات سے ماورا ہونا چاہییں۔
آن لائن کیے گئے اس سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین اعتماد بھی بڑھا ہے۔
پابندیاں حل نہیں، روسی صدر
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ مغربی ممالک کا اتحاد اور روس پر پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اپنے آبائی شہر سینٹ پیٹرز برگ میں ایک بزنس فورم سے خطاب میں انہوں نے سرمایہ کاروں پر زور دیا کہ وہ روس میں انویسٹمنٹ کریں۔
صدر پوٹن نے یوکرین پر حملے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون کو وسعت دیں گے، جو ان کے ساتھ تعاون کے متمنی ہیں۔
سینٹ پیٹرز برگ انٹرنیشنل اکنامک فورم سے خطاب میں پوٹن نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں بڑھتے ہوئے خطرات اور دھمکیوں کی وجہ سے ماسکو کو یوکرین میں خصوصی آپریشن کا فیصلہ مجبوراﹰ کرنا پڑا۔
روسی صدر نے یوکرین پر حملے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن ضروری تھا۔ انہوں نے دہرایا کہ اس عسکری مہم کا مقصد دراصل یوکرین کے ڈونباس علاقے میں روسی بولنے والی آبادی کا تحفظ تھا۔
ع ب، ع آ (ولیم نووا گلولرفوٹ)