یکم مئی تک غیر ملکی دستے نا نکلے تو حملے بحال، افغان طالبان
27 مارچ 2021افغان دارالحکومت کابل سے ہفتہ ستائیس مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسی ہفتے افغانستان سے امریکی فوجی دستون کے ممکنہ انخلاء سے متعلق جو بیان دیا تھا، اس میں انہوں نے کسی واضح نظام الاوقات کی وضاحت نہیں کی تھی۔ طالبان عسکریت پسندوں نے یہ وارننگ امریکی فوجی انخلاء کے اسی غیر واضح ٹائم ٹیبل کے پیش نظر دی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی پہلی پریس کانفرنس
طالبان نے جمعے کو رات گئے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہندوکش کی اس ریاست سے امریکی فوج کی واپسی کے لیے یکم مئی کی تاریخ ایک طے شدہ امر ہے اور اگر اس پر عمل نا کیا گیا تو ''جنگ میں طوالت، مزید ہلاکتوں اور تباہی کی تمام تر ذمے داری بھی انہی کے کندھوں پر ہو گی، جو اس حوالے سے گزشتہ فیصلے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔‘‘
امریکا کا طالبان سے کیا گیا معاہدہ
موجودہ صدر جو بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے گزشتہ برس قطری دارالحکومت دوحا میں افغان طالبان کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس کے تحت واشنگٹن کو افغانستان سے اپنے تمام فوجی اس سال یکم مئی تک نکال لینا ہیں۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ نے اقتدار میں آنے کے بعد اس معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق نئے سرے سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
صدر اشرف غنی کی پیشکش کی کبھی حمایت نہیں کریں گے، طالبان
کیا بھارت افغان امن مساعی میں کلیدی کردار ادا کرسکے گا؟
ایسے واضح اشارے بھی ہیں کہ کم از کم یکم مئی تک تو امریکا سمیت دیگر تمام ممالک کے فوجی دستے افغانستان سے نہیں نکل سکیں گے۔
اس معاہدے کے تحت واشنگٹن نے افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء کا وعدہ اس شرط پر کیا تھا کہ جواباﹰ طالبان کو القاعدہ سمیت تمام دہشت گرد گروپوں سے اپنے روابط ختم کرتے ہوئے کابل حکومت کے ساتھ انٹرا افغان مکالمت شروع کرنا تھی۔
ڈیل کے بعد سے غیر ملکی فوجیوں پر حملے بند
افغان طالبان نے دوحہ میں امریکا کے ساتھ معاہدے کے بعد سے اب تک امریکی قیادت میں فرائض انجام دینے والے نیٹو کے فوجی دستوں پر کوئی حملے نہیں کیے۔ لیکن اس کے برعکس طالبان عسکریت پسند افغانستان کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت اور اس کی فورسز کے خلاف اپنے حملوں میں واضح تیزی لا چکے ہیں۔
’ہم افغانستان میں اکٹھے داخل ہوئے اور اکٹھے ہی نکلیں گے‘
امریکی وزیر دفاع کا اچانک دورہ افغانستان
دوسری طرف طالبان اور کابل حکومت کے نمائندوں کے مابین گزشتہ برس ستمبر میں جن امن مذاکرات کا آغاز ہوا تھا، ان میں بھی اب تک کوئی بڑی یا ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔
صدر بائیڈن کا بیان
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات پچیس مارچ کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ یہ 'نہیں دیکھ سکتے‘ کہ افغانستان میں امریکی فوجی اگلے برس بھی موجود رہیں گے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایسی کوئی بات بھی نہیں کہی تھی کہ واشنگٹن اور نیٹو کے مسلح دستے یکم مئی تک ہندو کش کی اس ریاست سے نکل جائیں گے۔
افغانستان میں فریقین فوراً جنگ بندی کریں، ماسکو امن کانفرنس کی اپیل
صدر بائیڈن کا یہی مبہم بیان طالبان کی طرف سے تازہ ترین دھمکی کی وجہ بنا، جس میں طالبان نے کہا کہ یکم مئی کے بعد بھی افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستے موجود رہے، تو طالبان کے جنگجو ان پر دوبارہ اپنے حملے شروع کر دیں گے۔
مقررہ تاریخ تک فوج کا افغانستان سے انخلاء ’مشکل‘، بائیڈن
'دوحہ معاہدہ بہترین موقع‘
اس حوالے سے طالبان نے جو بیان جاری کیا ہے، اس میں انہوں نے صدر بائیڈن کے حالیہ بیان کو 'مبہم‘ قرار دے کر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ دوحہ میں ہونے والا معاہدہ اب بھی وہ بہترین موقع ہے، جسے استعمال میں لاتے ہوئے ہندو کش کی اس ریاست میں بیس سال سے جاری جنگ ختم کی جا سکتی ہے۔
افغانستان میں نئے انتخابات تک عبوری حکومت کی امریکی تجویز
افغان طالبان نے یہ بھی کہا کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنے حصے کی ذمے داریاں پورا کرنے کا اب بھی تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
م م / ع ح (ڈی پی اے، روئٹرز)