1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یہودی آباد کاری پر جرمن چانسلر کے شدید تحفظات

عاطف بلوچ26 فروری 2014

جرمن چانسلر میرکل نے اسرائیل کی طرف سے متنازعہ علاقوں میں جاری یہودی آبادی کاری کے عمل پر ’سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے مابین ایران کے جوہری پروگرام پر جاری عالمی مذاکرات پر بھی اختلافات دیکھے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BFMn
تصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیل اور جرمنی کی کابینہ کے مشترکہ اجلاس کے بعد منگل 25 فروری کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا، ’’ہم آباد کاری کے معاملے کو انتہائی تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔‘‘ میرکل کا اصرار تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور دو ریاستی حل کی طرف آگے بڑھنا چاہیے۔

اس تنقید کے باوجود انگیلا میرکل نے ایسی تمام تر تجاویز کی مخالفت کی کہ اگر تل ابیب حکومت متنازعہ علاقوں میں نئے مکانات کی تعمیر کا عمل جاری رکھتی ہے تو اس کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ یروشلم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میرکل نے مزید کہا، ’’ہم امید رکھتے ہیں کہ (آباد کاری کا) یہ معاملہ دو ریاستی حل کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرے گا۔‘‘

Angela Merkel und Benjamin Netanjahu Regierungskonsultationen 25. Feb. 2014
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور جرمن چانسلر میرکلتصویر: picture-alliance/dpa

’یہودی آباد کاری ایک مسئلہ‘

یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس جب سے اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں کے مابین مشرق وسطیٰ امن مذاکرات بحال ہوئے ہیں، اس کے بعد سے اسرائیلی حکومت متنازعہ علاقوں میں گیارہ ہزار 700 نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دے چکی ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف فلسطینی رہنماؤں نے اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ واشنگٹن حکومت سمیت متعدد دیگر مغربی ممالک نے بھی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

عالمی برداری کے خیال میں یہودی آباد کاری امن مذاکرات کو سبوتاژ کر سکتی ہے جبکہ نیتن یاہو کا خیال ہے کہ یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں ہے۔ اس اختلاف کے باعث فلسطینی رہنماؤں نے امن مذاکرات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا تاہم امریکی ثالثی سے یہ مذاکرات تقریباﹰ تین سال کے تعطل کے بعد بحال ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہ نئے آباد کاری غیر قانونی قرار دی جاتی ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی معطلی چاہتے ہیں۔ انہوں ںے کہا، ’’جو اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ کسی اور ملک کا بائیکاٹ کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل واحد حقیقی جمہوری ملک ہے، ’’وہ (بائیکاٹ کی باتیں کرنے والے) یہودی ریاست پر الزام دھر رہے ہیں، وہ اس ملک کو تنہا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کا بائیکاٹ کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں بلکہ اس سے امن مذاکرات پیچھے کی طرف چلے جائیں گے۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیموں کے علاوہ جرمنی کے کچھ حلقے بھی یہودی آبادی کے معاملے پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے کے حق میں ہیں۔

ایران کے معاملے پر اختلافات

Deutschland Israel Regierungskonsultationen Merkel und Peres
اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے انگیلا میرکل کو اسرائیل کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بھی نوازاتصویر: Reuters

جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ان کی کابینہ کے متعدد ارکان کے دو روزہ دورہ اسرائیل کے دوران جہاں دونوں حلیف ممالک نے باہمی اشتراک کے متعدد سمجھوتوں کو حتمی شکل دی وہیں انہوں نے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر بھی مفصل گفتگو کی۔ بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی طاقتوں کی طرف سے ایران پر عائد پابندیوں کو نرم کرنا ایک غلطی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران حکومت کے جوہری عزائم سے نمٹنے کے لیے انتہائی سخت رویہ اختیار کرنا ہو گا۔ تاہم چانسلر میرکل نے کہا کہ ایران کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم درجے کی یورنیم افزودہ کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ میرکل نے البتہ اسرائیلی مؤقف بھی دہرایا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں آنے چاہییں۔

سن 2008 کے بعد جرمن اور اسرائیلی کابینہ کے ارکان کے مابین مشاروت کا یہ پانچواں سلسلہ تھا، جو اسرائیل میں دو دن تک جاری رہا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے کابینہ کے اراکین کے مابین ملاقاتوں کو خوشگوار اور تعمیری قرار دیا ہے۔ منگل کی شام اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے انگیلا میرکل کو اسرائیل کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے بھی نوازا۔ صدر پیریز نے میرکل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل کی سلامتی کے معاملات پر کھل کر آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔