2008ء کا سالانہ ادبی میزانیہ
25 دسمبر 2008برطانیہ کی خاتون ادیبہ جے کے رالنگ کا شمار دَورِ حاضر کے کامیاب ترین تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ ہَیری پَوٹر کی سات جلدیں لکھنے کے بعد وہ اِس داستان کو تو اختتام تک پہنچا چکی ہیں لیکن ابھی دسمبر کے اوائل میں اُن کی تازہ ترین کتاب ’’دا ٹیلز آف بِیڈل دا بارڈ‘‘ بازار میں آئی اور اِس کا جرمن ترجمہ یہاں جرمنی میں بھی ہاتھوں ہاتھ بِک گیا۔
جے کے رالنگ جادوئی موضوعات پر لکھنے کا جواز یوں بتاتی ہیں: ’’میرے خیال میں ہم میں سے اکثر کے دِل میں یہ خواہش چھپی ہوتی ہے کہ ہم کسی طرح سے چیزوں کو بہتر بنا سکیں، چیزوں کو تبدیل کر سکیں۔ ہم محض جادو کے ذریعے دنیا کو بدل سکتے ہیں، بشرطیکہ ہمیں درست جادوئی فارمولا آتا ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بچے اِس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔‘‘
جرمنی میں جے کے رالنگ کی تازہ ترین کتاب چند روز کے اندر اندر تین لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔
جہاں ہر طرف مالیاتی بحران کے اثرات دکھائی دیتے ہیں، وہاں کتاب کی جرمن صنعت اِن اثرات سے محفوظ دکھائی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اِس شعبے کو حاصل ہونے والی آمدنی گذشتہ سال کے مقابلے میں بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
اکتالیس سالہ جوناتھن لٹل پیدا نیویارک میں ہوئے، امریکہ اور فرانس کی دہری شہریت رکھتے ہیں جبکہ رہتے اسپین کے شہر بارسلونا میں ہیں۔ فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا اُن کا ناول ’’دا کائنڈلی وَنز‘‘ دو ہزار چھ میں فرانس میں شائع ہوا تھا اور بےحد مقبول ہوا تھا۔ یہ ناول دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک ہم جنس پرست نازی جرمن فوجی افسر کی فرضی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ اِس طرح شاید پہلی بارحالات کو مظلوم کی بجائے ظلم کرنے والے کے زاویہء نظر سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جوناتھن لٹل کہتے ہیں:’’آپ روانڈا کی مثال لے لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم یورپ میں نازی سوشلسٹوں کے دور پر تو اظہارِ افسوس کرتے ہیں اور پچاس سال بعد بھی اِس کوشش میں ہیں کہ لوگ یہودیوں کے قتلِ عام کو بھول نہ جائیں۔ لیکن پھر ہم فرانسیسیوں، امریکیوں اور اقوامِ متحدہ کی آنکھوں کے سامنے یہ قتلِ عام ہوجاتا ہے۔ میرا خیال ہے، ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
جوناتھن لٹل کی کتاب ’’دا کائڈلی وَنز‘‘ کا چَودہ سو صفحات پر مشتمل جرمن ترجمہ اِس سال کے شروع میں برلن سے شائع ہوا اور یہاں جرمنی میں بھی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شامل رہا۔ جرمن ادبی نقادوں میں سے کئی ایک نے اِس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے تو کئی دیگر نے اِسے عامیانہ ادب کا بھی نمونہ قرار دیا۔ انگریزی زبان میں اِس ناول کا ترجمہ اگلے برس تین مارچ کو جاری ہو گا۔
جس طرح سن 2006ء میں جرمن ٹیلی وژن کے معروف کمپیئر ہاپے کیرکلنگ کی کتاب بہت بڑی تعداد میں فروخت ہوئی تھی، اِسی طرح اِس سال بھی ٹی وی کی ایک مشہور شخصیت کی لکھی ہوئی کتاب نے فروخت کے زبردست ریکارڈ قائم کئے۔
30 سالہ نوجوان جرمن خاتون شارلوٹے روشے گلوکارہ بھی ہیں اور کمپیئر بھی لیکن اِس سال اُنہیں عالمی شہرت ملی، اپنے پہلے اور اشتعال انگیز ناول Wetlands کے ذریعے۔ 220 صفحات کا یہ ناول پچیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور یوں جرمنی ہی نہیں پوری دُنیا میں ایک اعشاریہ تین ملین سے زیادہ کی تعداد میں فروخت ہوا۔ اِس کتاب کے حامیوں نے اِسے سال کی بہترین ادبی تخلیق قرار دیا تو ناقدین نے اِسے فحش نگاری کا نمونہ بتاتے ہوئے اِسے ہدفِ تنقید بنایا۔
جرمن زبان ہی میں لکھنے والے ژوزیف وِنکلر کا تعلق جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا سے ہے۔ اُن کے حصے میں اِس سال آیا، چالیس ہزار یورو مالیت کا اہم ترین جرمن ادبی اعزاز گیورگ بیوشنر پرائز۔ اپنی تخلیقات کے حوالے سےکہتے ہیں:’’جب مَیں اپنے قلم سے کوئی خوبصورت تحریر تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں تو جیسا کہ ہر شخص کے ساتھ ہوا کرتا ہے، مجھے بھی اطمینان ہوتا ہے اور خوشی ہوتی ہے۔‘‘
اُووے ٹَیل کامپ جرمن میڈیکل ڈاکٹر بھی ہیں اور ادیب بھی۔ اُن کا ایک ہزار صفحات پر مشتمل ناول ’’دا ٹاور‘‘ آج کل سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سرِ فہرست جا رہا ہے۔ اِسی تخلیق پر اُنہیں اِس سال جرمن بُک پرائز سے بھی نوازا گیا ہے۔ 25 ہزار یورو مالیت کا یہ انعام جرمن زبان میں لکھے گئے بہترین ناول پر دیا جاتا ہے۔
دو ہزار آٹھ اردو ادب کے لحاظ سے ایک بنجر سال:
اردو ادب کے لئے یہ سال کیسا رہا، اِس حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لاہور پاکستان سے اردو کے اُستاد اور ممتاز نقاد پروفیسر ڈاکٹر سلیم اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’جہاں تک تخلیقی ادب، فکشن، شاعری اور تنقید یا دیگر اصناف کا تعلق ہے تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ایسی کتاب نہیں آئی کہ جسے ہم کہیں کہ یہ دو ہزار آٹھ کے حوالے سے بِگ بَینگ ثابت ہوئی۔ تخلیقی لحاظ سے یہ ایک بنجر سال ہے۔‘‘
پروفیسر سیلم اختر کے مطابق اِس سال مرزا اطہر بیگ کا ایک ضخیم ناول ’’غلام باغ‘‘ شائع ہوا، جو ابسرڈ تیکنیک میں لکھا گیا ایک تجرباتی ناول تھا۔ اُنہوں نے خواتین میں نیلم احمد بشیر کے افسانوں کے مجموعے ’’ایک تھی عورت‘‘کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ اچھی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ تنقید کے شعبے میں اُنہوں نے پروفیسر سید شبیر الحسن کی کتاب ’’ترغیبات‘‘ کو قابلِ ذکر قرار دیا، جو کہ اُن کے تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ تاہم اُنہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اردو ادب کے حوالے سے اِس سال زیادہ گہما گہمی دیکھنے میں نہیں آئی۔
سال دو ہزار آٹھ، مختصر مختصر:
سن دو ہزار آٹھ کا نوبیل انعام برائے ادب اڑسٹھ سالہ فرانسیسی ادیب ژَوں ماری گُستاف لے کلیزیو کو دیا گیا۔ اُن کی پہلی کتاب ’’دا اِنٹَیروگیشن‘‘ سن اُنیس سو تریسٹھ میں شائع ہوئی تھی۔ اُنہوں نےعالمی شہرت کی دہلیز پر اُنیس سو اَسی میں قدم رکھے، اپنے ناول ’’دا ڈَیزرٹ‘‘ کے لئے، جس میں شمالی افریقہ کی ثقافت کو خوبصورت طریقے سے اُجاگر کیا گیا تھا۔
آن لائن کتابیں فروخت کرنے والے مشہور ادارے ایمیزون نے اِس سال فرینکفرٹ کے عالمی کتاب میلے میں ’’کِنڈَل‘‘ کے نام سے ایک نئی الیکٹرانک بُک متعارِف کروائی۔ امریکہ میں یہ ای بُک پہلے ہی کامیابی سے فروخت ہو چکی ہے۔ موبائیل فون کی ٹیکنالوجی کے ذریعے اِس آلے پر ہمہ وقت ہزارہا کتابیں، اخبارات و جرائد اور تازہ ترین بلاگز ڈاؤن لوڈ ہوتے رہتے ہیں۔ مشہور ادارہ سونی ’’رِیڈر‘‘ کے نام سے اپنی الیکٹرانک بُک اگلے سال سے جرمنی میں متعارف کروانے جا رہا ہے۔
اِس سال بھارت کے 33 سالہ ادیب اَروِند اَڈِیگا نےادب کی دُنیا کا ممتاز ایوارڈ بُکر پرائز حاصل کیا۔ اُنہیں پچاس ہزار پاؤنڈ مالیت کا یہ اعزاز اُن کے پہلےناول ’’دا وائٹ ٹائیگر‘‘ کے لئے دیا گیا۔ چِنائے میں پیدا ہونے والے اَڈِیگا آج کل ممبئی میں رہتے ہیں۔
گذشتہ برس محض چھبیس برس کی عمر میں اچانک انتقال کر جانے والی نوجوان بھارتی ادیبہ شکتی بھٹ سے موسوم پہلا ایوارڈ پاکستانی ادیب محمد حنیف کو دیا گیا، اُن کے انگریزی زبان کے پہلے ناول ”اے کیس آف اپکسپلورنگ مینگوز کے لئے“، جس میں سابق پاکستانی فوجی حکمران ضیاءالحق کی موت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اِس انعام کے لئے نامزد سات کتابوں میں بکر پرائز جیتنے والے اروند اڈیگا بھی شامل تھے۔ ایک لاکھ روپے مالیت کا یہ انعام ہر سال کسی ادیب کی پہلی کامیاب تخلیق کے لئے دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔