2009ء میں پاکستانی کھیل: خوشی بھی، زخم بھی
31 دسمبر 2009یہ پر مسرت لمحے اپنی جگہ انمول تھے مگر اب پاکستانی کرکٹرز کے آسٹریلیا پہنچنے تک اس عظیم فتح کی چمک سری لنکن کرکٹرز پر ہوئے لاہور میں ہوئے حملے اور بعد ازاں ’گرین شرٹس‘ کی پے درپے ناکامیوں کے درمیان کہیں ماند پڑچکی ہے۔ تین مارچ کی صبح لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر دہشت گردانہ حملے میں نہ صرف آٹھ افراد جاں بحق اور چھ مہمان کھلاڑی زخمی ہوئے بلکہ پاکستانی سرزمین بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے ’شجر ممنوعہ‘ قرار پائی۔ اس سانحے کے نتیجے میں پاکستان کو فوری طور پر ورلڈ کپ 2011ء کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ’ہوم سیریز‘ کی میزبانی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم انتشار کا شکار ہوگئی اور دیگر ایونٹس میں اسکی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ پاکستان پورے سال کے دوران کوئی ٹیسٹ یا ون ڈے سیریز نہ جیت سکا۔ اسے موسم گرما میں سری لنکا نے ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے شکست دینے کے علاوہ دو متواتر ون ڈے سیریز میں بھی زیر کیا۔
ستمبر میں آئی سی سی چمپیئنز ٹرافی کا سیمی فائنل ہارنے والی پاکستان ٹیم کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ہوم ون ڈے سیریز میں بھی ہار کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی وکٹ کیپر کامران اکمل کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں سال کے سب سے کامیاب بیٹسمین جبکہ لیگ اسپنر دانش کنیریا اور عمر گل کامیاب ترین بولر ٹھہرے۔کامران تادم تحریر ٹیسٹ کرکٹ میں581، ون ڈے میں 509 اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی میں286 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر ہیں۔ دانش کنیریا ٹیسٹ میچوں میں سب سے زیادہ 25جبکہ عمر گل ون ڈے اورٹی ٹوئنٹی میں بالترتیب 27اور 19وکٹوں کے ساتھ سب سے آگے رہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی غیر مستقل مزاجی کے سبب سال دو ہزار نو میں قومی ٹیم کی باگ ڈور ریکارڈ پانچ کپتانوں کے ہاتھ میں رہی۔ ان میں شعیب ملک، یونس خان، شاہد آفریدی، محمد یوسف اور مصباح الحق شامل ہیں۔
کپتانی سے ہی اٹھکیلیاں کرنے والے یونس خان عظیم کرکٹر حنیف محمد اور انضمام الحق کے بعد ٹرپل سینچری بنانے والے تیسرے پاکستانی بیٹسمین بنے۔
اس سال ’پی سی بی‘ کی ’غلام گردشوں‘ میں جاوید میاں داد، عبدالقادر، عامر سہیل اور سلیم الطاف جیسے عہدے داروں کے استعفوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی ’پاور‘ اور میچ فکسنگ کی گونج بھی سنائی دیتی رہی۔
سابق ٹیسٹ اوپنر شعیب محمد سال 2009 کو پاکستان کرکٹ کا بہت ہی مشکل سال قرار دیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے اردو سروس سے گفتگو میں شعیب محمد نے کہا کہ دھماکوں اور نامساعد حالات کے باوجود پاکستانی ٹیم سال بھر بہتری کی جانب گامز ن رہی۔’’ٹاپ آرڈر بیٹنگ کی ناکامیوں اور ناقص فیلڈنگ نے ٹیم کو سر نگوں کیا۔‘‘ شعیب نے مزید کہا کہ قومی ٹیم سال دو ہزار نو میں سری لنکا اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیت سکتی تھی مگر ’’خراب کیچنگ اور بلے بازوں کے خود کوحالات کے مطابق نہ ڈھالنے کی عادت ٹیم کو لے ڈوبی۔‘‘
پاکستان ہاکی:
2009 ء پا کستان ہاکی کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ مارچ میں اذلان شاہ کپ میں چوتھی پوزیشن کے ساتھ سالانہ اسائنمنٹس کا مایوس کن آغاز کرنے والی پاکستان ہاکی ٹیم نے عالمی ٹورنامنٹس کے تین فائنل کھیلے۔ نومبر میں فرانس کے شہر لیل میں کوالیفائنگ راوٴنڈ کے فائنل میں پاکستان نے جاپان کو ہرا کر دہلی ورلڈ کپ 2010ءمیں جگہ پکی کر لی، جو اسکی سال کی بہترین کارکردگی تھی۔
پاکستان کی جونئیر ہاکی ٹیم نے بھی ایشیا کپ کا ٹائٹل جیتا البتہ نیوزی لینڈ کے سامنے حیران کن طور پر پاکستانی سینیئر اور جو نیئر، دونوں ٹیمیں چار مرتبہ ’’ترنوالہ‘‘ ثابت ہوئیں۔
سہیل عباس پھر چیمپیئن:
پنیلٹی کارنر سپیشلسٹ سہیل عباس کی تین برس بعد 27گولز کی دھماکہ خیز کارکردگی کے ساتھ بین الاقوامی ہاکی میں واپسی ہوئی۔ عباس نے ارجنٹائن کے شہر سالٹا میں ہونے والے چیمپیئن چیلنج کپ کے دوران گول کرنے کی ٹرپل سنچری بھی مکمل کر لی۔ وہ یہ سنگ میل عبور کرنے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی ہیں۔
پاکستان فُٹ بال:
فٹ بال میں پاکستان کی عالمی رینکنگ 171سے بہتر ہو کر 156ہوگئی مگر اسے 12ماہ میں صرف بھوٹان اوربرونائی جیسے کمزور حریفوں کے خلاف کامیابی پر ہی اکتفا کر نا پڑا۔ میزبان بنگلہ دیش کے خلاف ساف کپ میں مقابلہ برابر ی پر ختم کرنا پاکستانی ٹیم کے لئے کسی کارنامہ سے کم نہ تھا۔ سال کے اختتام پر کپتان محمد عیسیٰ اورگول کیپر جعفر خان نے غیر ملکی کوچ جارج کاٹن کے ساتھ اختلافات کے باعث فٹ بال کو خیر باد کہنے کا اعلان کر دیا۔
سکواش:
سکواش میں ابھرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑی عامر اطلس خان نے نومبر میں عالمی چیمپیئن فرانس کے گیری گولٹیر کو قطر اوپن میں ہرا کر تہلکہ مچایا مگر ورلڈ اوپن اوربرٹش اوپن میں کوئی بھی پاکستانی دوسرے راوٴنڈ سے آگے قدم نہ بڑھا سکا۔ ٹینس میں اعصام الحق قریشی نے اپنے امریکی پارٹنر کے ہمراہ سوئس اوپن کے ڈبلز میں عالمی نمبر ایک راجرر فیڈرر کو ہرا کر شہ سرخیوں میں جگہ پائی تاہم دیگر کھیلوں میں پاکستان نے جہاں سال 2009ء شروع کیا تھا، عین اسی حالت زار میں اسکا انجام بھی ہوا چاہتا ہے۔
رپورٹ:طارق سعید، لاہور
ادارت: گوہر نذیر گیلانی، بون