2010ء : جرمن فوج کے لئے ايک مشکل سال
27 دسمبر 2010جہاں جرمن فوج کو بہت بڑے اصلاحاتی پروگرام کا سامنا ہے، وہاں اُسے بيرون ملک افغانستان کے محاذ پر شديد جانی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے ہيںانخلاء،ذہنی صدمہ، ، ۔ ابھی چند ماہ قبل ہی طالبان کے حملے کی زد ميں آ کر آٹھ جرمن فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اُن کی تعزيتی رسوم کے دوران جرمن وزير دفاع کارل تھيوڈور سو گٹن برگ نے پہلی بار سرکاری سطح پر افغانستان ميں جنگ کی بات کی۔ فوجيوں نے افغانستان ميں اپنی سرگرميوں اور حالات کو جنگ ہی کہا، جہاں انہيں ہر جگہ ہی موت اور زخموں کا سامنا ہے۔ افغانستان ميں امن اور استحکام دور کی بات معلوم ہوتی ہے۔
افغانستان ميں کارروائی شروع ہونے کے نو سال بعد سياستدانوں کولازمی فوجی سروس اس گورکھ دھندے سے نکلنے کا کوئی رستہ دکھائی نہيں دے رہا۔ جرمن چانسلر انگیلا ميرکل نے کہا کہ جرمن فوج ضرورت سے ايک بھی دن زيادہ افغانستان ميں نہيں رہے گی۔ ليکن انہوں نے يہ بھی کہا کہ ’ہم ايک مستحکم افغانستان سے متعلق اپنی ذمہ داری سے يوں راتوں رات فرار بھی نہيں ہو سکتے۔‘ وہ افغانستان ميں ہلاک ہونے والے فوجيوں کی تعزيتی رسوم ميں پہلی بار شرکت کر رہی تھيں۔
افغانستان سے واپس آنے والے جرمن سپاہیوں ميں ايسے فوجيوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو اس جنگ کے باعث ذہنی صدمے سے دوچار ہيں اور جنہیں ماہرين نفسيات سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ جرمن فوج نے بھی افغان فوج کی تربيت کا کام تيز کر ديا ہے تاکہ وہ خود اپنے ملک کی حفاظت کا کام سنبھال سکے، تاہم اس کے باوجود جرمن فوج کے افغانستان سے انخلا کی کوئی قطعی اور واضح تاريخ تاحال متعين نہيں کی گئی ہے۔
ملک کے اندر جرمن فوج کو اپنی تاريخ کی سب سے وسيع اور بنيادی نوعيت کی اصلاحات کا سامنا ہے۔ برلن ميں سياستدانوں کا کہنا ہے کہ فوج بہت بڑی، بھاری بھرکم اور مہنگی ہے۔
وزير دفاع سو گٹن برگ نے ماہرين کو طلب کيا کہ وہ فوج کے ڈھانچے کا پورے طور سے جائزہ ليں۔ ان کے قائم کردہ کميشن نے سفارش کی ہے کہ فوج ميں کمی کر کے اس کی زيادہ سے زيادہ نفری ايک لاکھ 85 ہزار کر دی جائے۔ اس کے لئے لازمی فوجی سروس کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔ وزير دفاع سو گٹن برگ اس سے پہلے لازمی فوجی سروس کے پر زور حامی تھے ليکن اب وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہيں۔
جرمن فوج ميں اصلاحات کے بعد اس کے سرد جنگ کے زمانے کے ڈھانچے کا بہت کم ہی حصہ باقی بچے گا۔ اب تک وزير دفاع کے اصلاحاتی پروگرام کے باوجود ان کی مقبوليت ميں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک