2010ء میں تقریباً دو ملین چینی جوڑوں کی طلاق
7 فروری 2011چینی ثقافت میں طلاق کو ایک ناپسندیدہ فعل کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ ایک قدیم چینی محاورے میں نئے شادی شُدہ جوڑے تب تک اِس بندھن میں بندھے رہنے کا عزم کرتے ہیں، ’جب تک کہ اُن کے بال سفید نہ ہو جائیں‘۔ قدیم جاگیردارانہ چینی معاشرے میں کسی خاتون کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ شادی کرنا باعث شرم سمجھا جاتا تھا۔ طلاق یافتہ خواتین کو گھٹیا تصور کیا جاتا تھا اور اُنہیں عام طور پر ’پرانے جوتے‘ کہا جاتا تھا۔ اِس کے مقابلے میں مردوں کے لیے طلاق لینا روایتی طور پر آسان ہوتا تھا۔
آج کے چین میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بیجنگ سے موصولہ خبروں کے مطابق ’لیگل ایوننگ نیوز‘ نامی جریدے نے سماجی امور کی وزارت کے حوالے سے بتایا ہے کہ گزشتہ برس مجموعی طور پر 1.96 ملین جوڑوں نے طلاق کی درخواستیں جمع کروائیں۔ اِس کے مقابلے میں شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے اپنے ناموں کا اندراج کروانے والوں کی تعداد صرف 1.2 ملین رہی۔
چین میں 2003ء میں شادی سے متعلقہ قوانین میں ایک ترمیم متعارف کروائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں شادی اور طلاق دونوں کے طریقہء کار کو سادہ بنا دیا گیا تھا۔ ’لیگل ایوننگ نیوز‘ نے اپنی اتوار کی اشاعت میں بتایا ہے کہ تب سے چین میں طلاق کی شرح میں سالانہ اوسطاً 7.65 فیصد کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق اِس سے پہلے تک چین کے بہت سے علاقوں میں طلاق کے خواہشمند جوڑوں کو اپنی ملازمت کی جگہوں یا ہمسایہ کمیٹیوں سے ایک تحریری سرٹیفیکیٹ لینا پڑتا تھا اور تب کہیں جا کر شادی کے بندھن کو حتمی طور پر ختم کرنا ممکن ہوا کرتا تھا۔
طلاق کی اِس اونچی شرح نے چند ایک عوامی نمائندوں کو حیران پریشان کر دیا ہے اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سابقہ ضوابط کو بحال کیا جانا چاہیے تاہم ابھی تک شادی اور طلاق سے متعلقہ قانونی ترامیم جُوں کی تُوں موجود ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طلاق کی اونچی شرح کا باعث یہ حقیقت بھی بن رہی ہے کہ اب چین میں خواتین اور مردوں کے پاس پہلے کے مقابلے میں زیادہ پیسہ ہے اور وہ خود کو پہلے سے زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں۔
گزشتہ سال جنوب مغربی صوبے سیچوان میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ اخبار کے مطابق اِس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہاں ایسے شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جن کی ملازمت کی جگہیں اپنے گھروں سے دور ہیں۔ اِسی صورتِ حال کے نتیجے میں میاں بیوی کو زیادہ عرصے تک کے لیے ایک دوسرے سے دور رہنا پڑتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک