2016ء: ایک بار پھر ایک ہولناک سال، تبصرہ
31 دسمبر 20162016ء کا سال ایک ہولناک سال تھا۔ دنیا کا توازن بگڑ چکا ہے: مشرقِ وُسطیٰ میں خوفناک جنگیں چھِڑی ہوئی ہیں، شام میں، یمن میں، لیبیا میں اور درپردہ عراق میں بھی۔ بے رحمانہ، قاتلانہ اور بنیاد پرستانہ دہشت گردی کی علامت ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو ابھی شکست نہیں دی جا سکی ہے۔ ’عرب اسپرنگ‘ سے جنم لینے والی امیدیں، مطالق العنان حکمرانوں اور آمروں کی وجہ سے دم توڑ چکی ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا عرب دُنیا میں بھی یورپ کی قدیم اور مشہور جنگ کی طرح ایک ایسی تیس سالہ طویل جنگ شروع ہو جائے گی، جس میں گروہ، قبیلے اور مذہبی برادریاں ایک دوسرے کے خلاف شدید لڑائی میں مصروف ہو جائیں گی۔
سال نو پر انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے جلوسوں پر پابندی
مہاجرین اور دہشت گردی میں تعلق ہے، چیک صدر
برلن حملوں کے بعد جرمنی میں سکیورٹی نظام میں وسیع تبدیلیاں
اپنے بارے میں بے یقینی کی شکار یورپی یونین
یورپ، جس کے ساحلوں پر عرب دنیا سے آئے ہوئے مہاجرین پہنچ رہے ہیں، خود ہِل کر رہ گیا ہے۔ مہاجرین کے بحران ہی نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ’یورپی یک جہتی‘ زیادہ سے زیادہ ایک سننے میں اچھی لگنے والی سیاسی اصطلاح تو ہے لیکن یہ کسی دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتی۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے نے اس یورپی برادری کی جڑوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ برادری یہ جاننے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے کہ اس سے آگے کا سفر اِسے کہاں لے جائے گا۔ مشرقی یورپ میں تو قوم پرستانہ سوچ اور ایک الگ شناخت کی خواہش یقینی طور پر نظر آ ہی رہی ہے لیکن آئندہ برس ہمیں مغربی یورپ میں بھی طاقت کا توازن بدلتا نظر آ رہا ہے: ہالینڈ میں گیئرٹ وِلڈرز کے ذریعے جبکہ فرانس میں ایک نئے صدر کے انتخاب کی صورت میں، جو ممکنہ طور پر ایک کیتھولک ’تھیچرسٹ‘ ہو گا اور یہ چیز بھی ایک انقلاب کے مترادف ہو گی۔
اور اگلے برس جرمنی میں بھی، جو اس وقت استحکام کی علامت نظر آتا ہے، ستمبر میں عام انتخابات ہوں گے۔ سرِدست کوئی شخص بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ انگیلا میرکل آئندہ حکومت میں چانسلر نہیں ہوں گی۔ ڈوبتے اُبھرتے عالمی سیاسی منظر نامے میں وہ گزشتہ گیارہ برسوں سے ایک چٹان کی طرح کھڑی ہیں۔ لیکن جرمنی میں بھی دائیں بازو کی عوامیت پسند اور قوم پسند جماعت ’آلٹرنیٹیو فار جرمنی‘ وفاقی پارلیمان میں ضرور پہنچے گی اور اتنے زیادہ ووٹ لے کر پہنچے گی، جتنے کہ بہت سے لوگ نہیں چاہتے کہ وہ لے۔ گویا یہاں بھی دائیں بازو کی عوامیت پسندانہ سوچ غالب آ رہی ہے، گو ابھی اتنی نہیں کہ حکومت بنا سکے۔ جرمنی آئندہ برس بھی مستحکم رہے گا، گو کرسمس سے پہلے برلن میں ہونے والے دہشت پسندانہ حملے نے ملک کو بُری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
ٹرمپ اور پوٹن، دو متلون مزاج صدور
اگلی بے یقینی: امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت ہو گی۔ کیا اس صدر کے اقدامات کا پیشگی اندازہ لگانا ممکن ہو گا؟ ایک بزنس مین خارجہ سیاست میں کس انداز میں قدم رکھے گا؟ کیا وہ خارجہ سیاسی تعلقات کو ایک ’ڈیل‘ سمجھتا ہے یا سفارت کا فن؟ کیا ایک سُپر طاقت کا رہنما ہوتے ہوئے بھی وہ خود کو ایک عالمگیر سیاست کا حصہ بنائے گا یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا وہ خود کو مغربی دنیا کا ایک حصہ گردانتا ہے یا صرف اور صرف ’امریکا کو پھر سے عظیم‘ بنانے ہی کے لیے کوشاں رہے گا؟
دوسری جانب 2016ء میں روس اور صدر ولادیمیر پوٹن بڑے بھرپور انداز میں عالمی اسٹیج پر نظر آئے۔ روس محض ایک علاقائی طاقت نہیں ہے، جیسا کہ اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے صدر اوباما نے ایک بار حقارت سے کہا تھا۔ روس عرب دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی ایک بڑے کردار کے طور پر سرگرمِ عمل ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ روس سفارت کاری کی بجائے تنازعات کو فوجی طریقے سے حل کرنے کا قائل نظر آ رہا ہے۔ شام ہو یا یوکرائن، روس جان بوجھ کر تشدد اور طاقت کا راستہ اختیار کر رہا ہے۔ عالمی اسٹیج پر روس کی واپسی گویا عالمی سیاست میں اثر و نفوذ اور طاقت کو یقینی بنانے کے لیے فوجی مشنوں کے استعمال کی بھی واپسی ہے۔ مغربی دنیا کو، اگر ٹرمپ کے پہلے سال میں اس دنیا کا اتحاد باقی رہا تو، اس کا جواب دینا ہو گا۔ جرمنی کو بھی، جو روایتی طور پر مداخلت کی سیاست سے گریز کی کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔
تبصرہ: الیگزینڈر کوڈاشیف
ترجمہ: امجد علی