2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر
19 فروری 2017پیٹر آلٹمائر کا شمار جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے آلٹمائر چانسلر آفس کے وزیر بھی ہیں۔ کثیر الاشاعتی جرمن اخبار ’بِلڈ ام زونٹاگ‘ سے اپنی ایک گفتگو میں آلٹمائر کا کہنا تھا کہ اس سال بڑی تعداد میں تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کیا جائے گا۔
’جو جتنی جلدی واپس جائے گا، مراعات بھی اتنی زیادہ ملیں گی‘
جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر
آلٹمائر کا کہنا تھا، ’’گزشتہ برس اسّی ہزار سے زائد ایسے تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی ممالک کی جانب بھیج دیا گیا تھا جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں رد کر دی گئی تھیں اور موجودہ سال میں یہ تعداد ایک ریکارڈ حد تک پہنچ جائے گی۔‘‘
چانسلر آفس کے وزیر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سب سے پہلے اور فوری طور پر ایسے پناہ گزینوں کو جرمنی سے ملک بدر کیا جائے گا جو جرائم میں ملوث ہیں اور جو جرمنی کی قومی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں۔
جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے گزشتہ برس سیاسی پناہ کی سات لاکھ سے زائد درخواستوں پر فيصلے کيے جن میں سے قریب تین لاکھ درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ مجموعی طور پر جرمنی میں پانچ لاکھ سے زائد ایسے تارکین وطن موجود ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اس تناظر میں آلٹمائر کا کہنا تھا کہ ’’اگر ان تارکین وطن کو فوری طور پر واپس نہ بھیجا گیا تو ملکی قوانین کی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘
جرمنی کے وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر جرمنی میں ’ملک بدری کے خصوصی مراکز‘ قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے چانسلر آفس کے وزیر کا کہنا تھا کہ ’’یہ مراکز ملک بدر کرنے میں کافی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم نے اکثر یہ دیکھا ہے کہ تارکین وطن درخواستیں مسترد ہونے کے بعد واپس جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب واپسی کا وقت آتا ہے تو ان میں سے آدھے سے بھی زائد واپس نہیں جاتے۔‘‘
افغان مہاجرین کی وطن واپسی
پانچ وفاقی جرمن ریاستوں نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی روک دی ہے، ان میں سے ایک شلیسوِگ ہولسٹائن بھی ہے جس نے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے آلٹمائر نے کہا، ’’میری رائے میں ریاستوں کی جانب سے انفرادی طور پر ملک بدری کا عمل روکنا غلط ہے۔ افغانستان میں ایسے علاقے اور شہر بھی ہیں جہاں امن ہے اور افغان پناہ گزین وطن واپسی کے بعد وہاں قیام کر سکتے ہیں۔‘‘
دوسری جانب افغان مہاجرین کی ملک بدریوں کے خلاف مظاہروں کے باوجود یورپی یونین نے بھی ان کی وطن واپسی کے لیے کابل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر لیا ہے۔ یورپی یونین جن شرائط کے تحت افغانستان کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ کابل حکومت اپنی شہریوں کی وطن واپسی اور غیر قانونی طور پر یورپ کی جانب مہاجرت روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے گی۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں