70 لاکھ پاکستانی ذیابیطس کا شکار
13 نومبر 2010طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے شکار لوگوں کی بڑی تعداد کومعلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اس سنگین مرض کا شکار ہیں۔ تازہ تحقیقات کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس اب عمر رسیدہ یا امیر لوگوں کا ہی مرض نہیں رہا۔ عالمی ادارہء صحت کے ایک سروے کے مطابق ذیابیطس اب پاکستان کے دیہات اور پسماندہ علاقوں میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر اے صمد شیرا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ذیابیطس کے اُن مریضوں کو، جن کا لبلبہ انسولین نہیں بنا سکتا، ٹائپ ون کے مریض کہا جاتا ہے۔ یہ مرض زیادہ تر کم عمر لوگوں کو لاحق ہوتا ہے۔ ایسے مریض زیادہ تر امیر ملکوں میں ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد بہت کم ہے۔
ان کے مطابق ذیابیطس کے ٹائپ ٹو کے مریض وہ ہوتے ہیں، جن کا لبلبہ زیادہ انسولین نہیں بناتا۔ ناقص اور غیر متوازن غذا اور غیر سرگرم طرز زندگی کی وجہ سے اب پاکستان میں لوگ بڑی تعداد میں اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ دیگر ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ایسے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ ان مریضوں کو بھی چند سالوں بعد انسولین کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ڈاکٹر صمد کے مطابق ذیابیطس کی علامات میں پیشاب کی زیادتی اور پیاس کا بار بار لگنا بھی شامل ہے۔ ان کے بقول ذیابیطس سے بچاؤ کے لئے کمپیوٹر اور ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہنے والے لوگوں کو بھی اپنا طرز زندگی بدلنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صمد موٹاپے کا باعث بننے والی غذاؤں، کولڈ ڈرنکس، فاسٹ فوڈز، پیزا، بن برگر، بریانی اور نہاری وغیرہ کو بڑے پیمانے پر انسانوں کو تباہی سے دوچار کر دینے والے ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ذیابیطس کے علاج میں غفلت مریض کے دل، آنکھوں، گردوں اور جگر کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ متوازن غذا، باقاعدہ ورزش اور مناسب علاج کے ذریعے ہی شوگر کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر اظہار ہاشمی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ذیابیطس کی وجہ سے پاکستان کے غریب مریضوں کے اقتصادی بوجھ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کی حکومت وسائل کی کمیابی کی وجہ سے مطلوبہ اقدامات نہیں کر پا رہی۔ ان کے مطابق اس وقت پاکستان میں ذیابیطس کے قریباً چار لاکھ مریض ایسے ہیں، جنہیں پاؤں کے حوالے سے پیدا ہو جانے والی پیچیدگیوں کے باعث فوری طبی نگہداشت کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کے سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں کوئی ایک بھی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے، جو خاص طور پر اس حوالے سے سروس فراہم کرتا ہو۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امجد علی