89 سالہ رابرٹ موگابے کا ساتواں دور صدارت
22 اگست 2013زمبابوے میں صرف رابرٹ موگابے ہی وہ واحد شخصیت ہیں، جوکہتے ہیں کہ انہیں کسی جانشین کی ضرورت نہیں۔ صدارتی انتخابات سے قبل جب ان سے صحافیوں نے پوچھا کہ کیا واقعی وہ 2018ء تک صدر کے منصب پر فائز رہنا چاہتے ہیں، تو ان کا جواب تھا، ’’کیا آپ نہیں چاہتے کہ میں ہی تمام وقت صدر کے عہدے پر فائز رہوں؟ میں کیوں انتخابات میں حصہ لوں اور پھر بعد میں کسی اور کے لیے دستبردار ہو جاؤں؟ ‘‘
ملکی اپوزیشن کے اخبار ’دی زمبابویئن‘ کے مدیر اعلٰی وِلف ایمبانگا نے ڈی ڈبلیوکو بتایا کہ موگابے گزشتہ 33 برسوں سے برسر اقتدار ہیں اور اب ان کا بڑھاپا بہت نمایاں ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ طویل عرصے سے یہ افواہ بھی گردش میں ہے کہ وہ سرطان میں مبتلا ہیں۔ ایمبانگا کے بقول موگابے کا زیادہ تر علاج بیرون ملک ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس بارے میں مصدقہ طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
موگابے نے اس دوران مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے اپنے متعدد مخالفین کو راستے سے ہٹایا ہے لیکن کسی بھی رہنما کو اپنا جانشین مقررنہیں کیا۔ ماہرین اسے موگابے کی اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کی چال قرار دیتے ہیں۔
ہرارے میں سیاسی امور کے ماہر تھوماس ڈیوکہتے ہیں کہ موگابے خاتون نائب صدر جوائس مُوجُورُو کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں۔ 1980ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد مُوجُورُو کو وزیر بنایا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 25 برس تھی۔ ایک جانب وہ اگر کابینہ اور پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت کرتی تھیں تو دوسری طرف وہ اپنا انٹرمیڈیٹ بھی مکمل کر رہی تھیں۔ تھوماس ڈیوکے بقول مُوجُورُو کئی مرتبہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکی ہیں اور ہر مرتبہ موگابے انہیں واپس حکومت میں لے آئے۔ نئے آئین کے تحت اگر موگابے اپنے دور صدارت کے دوران انتقال کر جاتے ہیں تو بھی مُوجُورُو صدر نہیں بن سکیں گی۔ نئے انتخابات تک ملکی پارلیمان کا اسپیکر ایک نگران صدر کو نامزد کرے گا۔
وِلف ایمبانگا کے بقول اس صورت میں حکمران جماعت ’ زَانُو پی ایف‘ شدید بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول موگابے کی وجہ سے یہ جماعت متحد دکھائی دے رہی ہے۔ اگر وہ نہ رہے تواس جماعت کے پرانے کارکنوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے رسہ کشی شروع ہو جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ رابرٹ موگابے کے سب سے بڑے حریف مورگن چوانگیرائی اور ان کی جماعت کے لیے بھی حالیہ انتخابات ایک بڑی تباہی سے کم ثابت نہیں ہوئے۔
وِلف ایمبانگا کہتے ہیں کہ چوانگیرائی تین مرتبہ موگابے کے خلاف انتخابات میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے پارٹی قائد کے طور پر ان کا کردار متاثر کن نہیں رہا۔ اس کے علاوہ 2008ء سے 2013ء تک موگابے کے ساتھ اتحاد کرنے کی وجہ سے بھی ان کی جماعت کے بہت سے کارکن انہیں متنازعہ قرار دینے لگے ہیں۔