پاکستان کو اگرچہ آئی ایم ایف سے مالیاتی گلوکوز دستیاب ہو گیا ہے۔ اگر اس بنیاد پر اگلے چار ہفتے میں دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے ڈپازٹ کی بنیاد پر خزانے میں لگ بھگ 15 ارب ڈالر آ جاتے ہیں تو معاملات بظاہر کچھ عرصے کے لیے سنبھلے ہوئے دکھائی دیں گے، مگر اس معیشت کا اصل بحران پیسے یا سرمایہ کاری کی کمی نہیں بلکہ معیشت کے کنویں میں ٹیکس چوری اور ہیرا پھیری کا گرا ہوا وہ کتا ہے، جسے نکالے بغیر کنواں پاک نہیں ہو سکتا، بھلے آپ اس کنویں سے 40 چھوڑ 80 ڈول ہی پانی کیوں نہ نکال لیں۔
ٹیکس نیٹ کو بڑھاوا نہ دینے اور ٹیکس چوری کی روک تھام نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اربوں ڈالر بے پیندے کی بالٹی میں ڈال رہے ہیں۔
وسعت اللہ خان کی مزید تحریریں
آئی ایم ایف اور بھرا ہوا سگریٹ
اس تناظر میں ایک سرکردہ بین الاقوامی مارکیٹ ریسرچ کمپنی ایپسوس کے تازہ سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے پانچ تجارتی شعبے 956 بلین روپے سالانہ کی ٹیکس خرد برد میں مبتلا ہیں اور اگر یہ ٹیکس قومی حزانے میں جمع ہو جائے اور ایمان داری سے استعمال کی جائے تو اس رقم سے سالانہ قومی ترقیاتی پروگرام کے اخراجات پورے ہو سکتے ہیں، یا انتہائی غریب طبقات کے لیے جاری بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سال بھر کی مکمل فنانسنگ ہو سکتی ہے، یا وفاقی تعلیمی بجٹ میں 10 گنا اضافہ ہو سکتا ہے، یا پاکستان کی پوری آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم ہو سکتا ہے، یا 1700 کلومیٹر طویل موٹر ویز تعمیر ہو سکتی ہیں اور یا پھر مہمند ڈیم کی تعمیر مکمل ہو سکتی ہے۔
ایپسوس سروے کے مطابق ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں سالانہ 500 ارب روپے، تمباکو کی صنعت و تجارت میں 240 ارب روپے، ٹائروں اور موٹر لبریکنٹ کے کاروبار میں 56 ارب، دوا سازی کی صنعت میں 65 ارب روپے اور چائے کی درآمد میں 45 ارب روپے سالانہ کی ٹیکس ہیراپھیری ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کاروبار کا کتنا حجم ہے کوئی بھی ٹھیک سے نہیں جانتا۔ اس سیکٹر میں ہر علاقے میں زمین کی قیمت کے سرکاری ویلیوایشن ٹیبلز موجود ہیں مگر ان کے مطابق ایک پلاٹ کی اصل مارکیٹ ویلیو اور مقررہ سرکاری ریٹ کے درمیان 60 سے 70 فیصد کا فرق پایا جاتا ہے۔ گویا اگر ایک پلاٹ کی قیمت کمرشل قیمت 100 روپے ہے اور اسی پلاٹ کی ویلیو سرکاری ویلیو ایشن ٹیبل میں 30 روپے ہے تو ٹیکس 30 روپے پر ادا کیا جائے گا، جبکہ 70 روپے کسی بھی ٹرانزیکشن ریکارڈ میں آئے بغیر خریدنے والا بیچنے والے کو عموماً چیک یا بینک ٹرانسفر کے بجائے کیش کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ یوں 100 روپے کے سودے میں 70 روپے بلیک سے وائٹ ہو جاتے ہیں۔
سروے کی ایک مثال کے مطابق کراچی میں تین سو پراپرٹیز کی ویلیوایشن ٹیبل کے مطابق ٹرانزیکشن کے بعد 13 ارب روپے کی اضافی رقم خریدار سے فروخت کنندہ کو بنا کسی ٹیکس کی ادائیگی آسانی سے منتقل ہو گئی۔
آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ریئل اسٹیٹ کاروبار کو ریگولیٹ کر کے ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بنیادی اقدامات کیے جائیں۔ مگر ریئل اسٹیٹ لابی اس قدر طاقت ور ہے کہ کوئی حکومت آج تک سب کچھ جاننے کے باوجود اس بابت کچھ نہ کر پائی۔ اس کا نتیجہ خسارے کو پورا کرنے کے لیے کمر توڑ بلاواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں نکل رہا ہے۔
جہاں تک تمباکو کی صنعت و تجارت کا سوال ہے تو پاکستان میں جن شعبوں پر سب سے بھاری ایکسائز ڈیوٹی لگائی جاتی ہے ان میں تمباکو سرِ فہرست ہے۔ گزشتہ مالی سال میں اس شعبے پر ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں 200 فیصد تک اضافہ کیا گیا مگر اس کا الٹا اثر ہوا۔
سرکار سے منظور شدہ برانڈز کی قیمت تین گنا بڑھ گئی لیکن ان کی فروخت میں پچاس فیصد تک کمی آ گئی۔ اس خلا کو افغانستان اور ایران سے اسمگل ہونے والے بھانت بھانت کے برانڈز پر کر رہے ہیں۔ لگ بھگ 40 مقامی کمپنیاں بنا ٹیکس تیار کردہ سگریٹ، جعلی یا اسمگلڈ برانڈز کی تجارت میں شامل ہیں۔
تمباکو کی 52 فیصد صنعت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ گزشتہ حکومت نے سگریٹ کی غیرقانونی خرید و فروخت روکنے کے لیے ہر پیکٹ پر ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے اسٹیکرز لگانے کا حکم دیا۔ جس سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس پیکٹ پر ٹیکس ادا ہوا یا نہیں مگر صرف دو مقامی برانڈز ایسے ہیں جن پر آپ کو یہ اسٹیکرز چسپاں ملیں گے۔
پاکستان کی دوا ساز صنعت کا حجم 758 ارب روپے بتایا جاتا ہے۔ اس میں سالانہ 12 فیصد کی شرح سے ترقی ہو رہی ہے۔ 775 فارماسوٹیکل کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے 100 کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر 97 فیصد ہے۔ 60 فیصد مارکیٹ مقامی اور 30 فیصد بین الاقوامی دوا ساز کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ سات فیصد مارکیٹ جعلی ادویات پر مشتمل ہے اور تین فیصد مارکیٹ اسمگلڈ دواؤں پر چلتی ہے۔
گزشتہ ایک برس میں دواؤں کی مجموعی قیمت میں 38 فیصد اضافہ ہو چکا ہے مگر دواؤں کے خام مال کی انڈرانوائسنگ (ٹیکس چوری کے لیے اصل قیمت سے کم قیمت دستاویز میں دکھانا)، پروڈکشن کے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری اور جعلی و اسمگلڈ برانڈز مل ملا کے قومی خزانے کو سالانہ کم ازکم 65 ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں۔
اس بابت چوتھا شعبہ ٹائروں اور لبریکنٹ آئل کا کاروبار ہے۔ پاکستان میں سالانہ طلب 14 ملین ٹائر ہے۔ ان میں سے 65 فیصد اسمگلڈ ٹائر ہیں۔ 20 فیصد مقامی طور پر بنتے ہیں۔ صرف 15 فیصد باہر سے قانونی طور پر امپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے بھی 25 فیصد کی انڈرانوائسنگ ہوتی ہے۔
جبکہ 400 ملین لیٹر سالانہ کی کھپت والی آٹو لبریکنٹ کی فیصد صنعت غیر رجسٹرڈ ہے۔ گاڑیوں میں 50 فیصد آٹو لبریکنٹ ملاوٹ زدہ یا دوبارہ استعمال شدہ استعمال ہوتا ہے۔ اگر صرف اس خامی پر ہی قابو پا لیا جائے تو نہ صرف ماحولیات پر بہتر اثر پڑسکتا ہے، گاڑیوں کے انجن کی ٹیکنیکل لائف بڑھ سکتی ہے بلکہ اضافی 56 ارب روپے قومی خزانے میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں چائے کی کھپت فی کس سوا کلو گرام سالانہ بتائی جاتی ہے۔ سب کی سب کینیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے منگوائی جاتی ہے۔ زیادہ تر چائے ٹیکس فری افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے بھیس میں کراچی کی بندرگاہ پر اترتی ہے، مگر 80 فیصد مقدار کبھی بھی پاک افغان سرحد پار نہیں کرتی بلکہ مقامی مارکیٹ میں کھپ جاتی ہے۔ زیادہ تر کھپت کھلی چائے کی ہوتی ہے جس کی مقدار کو ملاوٹ کے ذریعے اور بڑھا لیا جاتا ہے۔ یوں نہ صرف ملکی خزانے کو کم ازکم 45 ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ عام آدمی کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
ان پانچوں شعبوں میں ٹیکس چوری روکنا دیگر شعبوں کے مقابلے میں قدرے آسان ہے مگر ٹیکس چوری تو بذاتِ خود ایک پھلتی پھولتی صنعت ہے۔ اس سے نہ جانے کتنے ہزار سرکاری اہلکاروں کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ کوئی ٹیکس چور کے پیٹ پر لات مار کے اپنے ہی پیٹ پر کیوں لات مارے گا۔
ازالے اور بھرپائی کے لیے آئی ایم ایف سمیت کئی عالمی مالیاتی ادارے اور چند امیر دوست ممالک ہیں نا، تو پھر کیا ضرورت ہے اصلاحات کی یا ٹیکس چوری کے سرچشمے بند کرنے کی۔