طالبان کی خواتین پر مسلسل پابندیاں عائد
29 مئی 2022گزشتہ سال اگست میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے سول سوسائٹی خاص طور پر خواتین کے خلاف سخت پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔
طالبان کی جانب سے سخت قوانین کا نفاذ
مظاہرین کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے اسکولوں کو کھولا جائے۔ افغانستان میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں اور ہزاروں طالبات گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مخصوص نوکریوں کے علاوہ دیگر ملازمتوں میں خواتین کو مزید کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان کی جانب سے خواتین کا تنہا سفر کرنا بھی ممنوع ہے۔ ان کے ساتھ مرد کا ہونا ضروری ہے۔ خواتین صرف مخصوص دنوں میں ہی پارکوں اور عوامی تفریحی مقامات کا دورہ کر سکتی ہیں۔
کابل میں خواتین کے اس حالیہ احتجاجی مظاہرے میں خواتین نے اپنے چہروں کو ڈھانپا ہوا تھا۔ یہ خواتین وزارت تعلیم کے دفتر کے باہر اکٹھی ہوئیں اور پُرزور انداز میں خواتین کے تعلیمی حقوق کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ مظاہرین نے کچھ سو میٹر تک مارچ کیا لیکن بعد میں طالبان اہلکاروں نے انہیں احتجاج کرنے سے روک دیا۔
زولیا پارسی نامی ایک خاتون کا کہنا تھا، ''ہم ایک اعلامیہ پڑھنا چاہتے تھے لیکن طالبان نے اس کی اجازت نہیں دی۔‘‘ پارسی کے مطابق، ''انہوں نے کچھ لڑکیوں کے موبائل فون چھین لیے اور ہمیں اپنے احتجاج کی تصاویر یا ویڈیوز بنانے سے بھی روک دیا۔‘‘
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے سخت اسلام پسند حکمرانی کے ایک نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا جو سن 1996 سے 2001 میں ان کے اقتدار سے مختلف ہونا تھا۔ لیکن طالبان اس وعدے کو پورا کرتے نظر نہیں آ رہے۔
حال ہی میں ملک کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک حکم نامے میں کہا کہ خواتین کو عام طور پر گھر میں رہنا چاہیے۔ انہیں یہ بھی حکم دیا گیا کہ اگر وہ کسی عوامی مقام پر جانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنے چہرے سمیت خود کو مکمل طور پر برقعے یا عبایہ سے ڈھانپنا ہو گا۔ طالبان کے اس حکم کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔ ناقدین کی رائے میں یہ حکم خواتین کو طالبان کے ماضی کے دور اقتدار میں دھکیل رہا ہے۔
طالبان نے خواتین کے احتجاج پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ عالمی سطح پر کئی ممالک کی جانب سے طالبان کو خواتین کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا کہا گیا ہے۔ لیکن طالبان قیادت کی جانب سے اقوام متحدہ اور ان ممالک کی درخواستوں پر کوئی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
افغان آبادی مفلسی اور بھوک کا شکار
افغانستان اس وقت شدید انسانی بحران کا بھی شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال ملک کے قریب گیارہ لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ غذائی قلت کے مرض کے شکار ہزاروں بچے اس سال علاج کے لیے ملک کے بڑے ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ صرف قندھار کے ایک ہسپتال میں تیس بچے شدید غذائی قلت کے باعث ہلاک ہو گئے۔ خشک سالی اور بین الاقوامی امداد کی کمی کے باعث ملک کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہو سکتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ طالبان کو خواتین پر سخت پابندیاں عائد کرنے کے بجائے ملک میں بھوک اور غربت کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ب ج ، ا ا (اے ایف پی)