پاکستان: عدالتی فیصلے ’ہوا کا رخ‘ دیکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں
1 جولائی 2021گزشتہ سال نومبر میں ایک بینک کے احمد نواز نامی گارڈ نے خوشاب میں اپنے ہی بینک کے مینیجر محمد حنیف پر پیغمبر اسلام کی توہین کا مرتکب ہونے کا الزام عائد لگاتے ہوئے اسے قتل کر دیا تھا۔
وکیل استغاثہ میاں رضوان کے مطابق جنوبی پنجاب کے ضلع خوشاب میں ایک روز قبل سامنےآنے والے عدالتی احکامات میں احمد نواز کو دوران گرفتاری پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں دو سال قید کی سزا بھی سنائی۔ احمد نواز کو اپیل کا حق حاصل ہے۔
احمد نواز کو نومبر 2020 ء میں بینک مینیجر ملک عمران حنیف پر فائرنگ اور اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ملزم نے گولی چلانے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ مقتول مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کی توہین کا مرتکب ہوا تھا۔ اس الزام نے اسلام پسندوں کی ایک بڑی تعداد کی توجہ احمد نواز کی طرف مبذول کرا دی تھی۔
ملک عمران حنیف کی فیملی نے ان الزامات کو سختی سے رد کیا تھا۔ بعد ازاں پولیس کی تفتیش سے پتا چلا تھا کہ نواز کی اپنے بینک مینیجر کے ساتھ کچھ ذاتی دشمنی تھی اور اسی وجہ سے اس نے مقتول پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اسے قتل کر دیا تھا۔
یورپی پارلیمان کی قرارداد: کيا پاکستان توہین مذہب کے قوانین ميں تراميم کرے گا؟
ایک متنازعہ مسئلہ
پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ایک عرصے سے متنازعہ بنا ہوا ہے، جس کے تحت اس جرم کے مرتکب افراد کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں معاشرے کے چند مخصوص سوچ رکھنے والے عناصر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس انسان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں، جسے وہ مبینہ مجرم سمجھتے ہیں۔ توہین مذہب کے الزام کی آڑ میں ذاتی دشمنیاں نمٹانا اور معاشرے میں یہ تاثر پیدا کرنا کہ مذہب کی توہین کرنے والوں کا انجام یہی ہونا چاہیے، منفی رجحانات کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدالت کی طرف سے بینک مینیجر کا قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت سنائے جانے پر مختلف حلقوں میں مختلف رد عمل سامنے آ رہا ہے۔
معروف صحافی اور ویب سائٹ ' ہم سب‘ کے مدیر عدنان کاکڑ نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں کہا، ''خوشاب کا واقعہ غالباً گاؤں، دیہات میں چلی آ رہی اس روایت کا تسلسل ہے، جس میں دشمن یا مخالف کو قتل کر کے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کام مذہب کے نام پر کیا گیا۔ ایسا کرنے کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ جرم کی شدت کو کم دیا جائے تاکہ سزا سے بچ نکلا جائے۔‘‘
توہین مذہب سے متعلق میری حکمت عملی کامیاب ہو گی، عمران خان
عدنان کاکڑ کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کے الزامات کی زد میں اب غیر مسلم اور لبرل طبقات بھی آنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ایسے میں عدالتوں کا یوں دلیری سے ایسے قاتلوں کے خلاف فیصلے سنانا خوش آئند تبدیلی ہے۔‘‘ عدنان کاکڑ نے کہا کہ خوشاب بینک قتل کیس میں ایک اچھی بات یہ تھی کہ جیسے ہی قاتل نے یہ الزام لگایا، مذہبی حلقوں اور مقتول کے جاننے والوں نے اُسی وقت سامنے آکر مقتول کے حق میں گواہی دی اور کہا کہ ایسا ہر گز ممکن نہیں اور یوں قاتل وہ حمایت حاصل نہ کر سکا جو وہ چاہتا تھا۔
توہین مذہب کے پیچھے کارفرما محرکات
خوشاب میں توہین مذہب کے الزام کے تحت قتل کرنے والے شخص کو عدالت کی طرف سے موت کی سزا سنانے کے فیصلے سے مذہبی بنیادوں پر کی جانے والی زیادتیوں میں کمی کی توقع کرنے سے ذاتی طور پر اختلاف کرتے ہوئے پاکستانی صحافی، تجزیہ کار اور بلاگر فرنود عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری رائے میں توہین مذہب کی بنیاد پر ہونے والی زیادتیوں کی دو سطحیں ہیں۔ ایک یہ کہ لوگ انفرادی سطح پر خود عدالت لگا کر قتل کی صورت میں اپنا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ دوسری سطح پر لوگ تھانوں اور عدالتوں کا گھیراؤ کرکے وہی فیصلہ کرواتے ہیں جو انہوں نے باہر خود کر لیے ہوتے ہیں۔ لوگ عدالت کو ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنانے کی آزادی نہیں دیتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جذبات کے مطابق فیصلہ سنایا جائے۔ عدالتیں ان حساس معاملات میں اسی لیے فیصلے نہیں سنا پاتیں کہ وکلا، جج صاحبان اور قانون نافذ کرنے والے اہل کار اور ان کے اہل خانہ غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان: دو مسیحی شہریوں پر توہین مذہب کا الزام، تفتیش جاری
فرنود عالم کا کہنا ہے کہ خوشاب کیس میں مقتول ایک مذہبی شخص تھا جس کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اس لیے مذہبی طبقے نے قاتل کی مذمت کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں کو فیصلہ سنانے میں زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فرنود عالم کے بقول، ''توہین مذہب کی بنیاد پر ہی جنید حفیظ جیسے لوگ سات آٹھ سالوں سے جیلوں میں قید ہیں۔ ان لوگوں کے لیے عدالتوں سے انصاف کی توقع کرنا ذرا مشکل اس لیے ہے کہ ان لوگوں کا کسی خاص مذہبی گروہ سے یا مذہبی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
فرنود عالم نے مزید کہا، ''پاکستان میں عدالتی فیصلے ثبوت اور شواہد کی بنا پر نہیں بلکہ ہوا کا رُخ دیکھ کر ہو رہے ہیں۔‘‘
توہین مذہب و رسالت کے مقدمات کا ریکارڈ اندراج
انسداد دہشت گردی کے قانون پر سوال؟
خوشاب کے بینک مینیجر کا توہین مذہب کے نام پر قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سنائی ہے۔ اس پر کچھ حلقوں کی طرف سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کے چیف ایگزیکٹیو پیٹر جیکب نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں چند اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا، ''گو کہ احمد نواز قتل کے جرم میں سخت سزا کا مستحق ہے لیکن پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت جن مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے، ان کے بارے میں 21 جون 2019 ء کو سپریم کورٹ یہ فیصلہ سنا چکی ہے اور جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قوانین کو ڈھیلے ڈھالے طریقے سے تشکیل دیا گیا ہے اور ان پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
توہین رسالت میں تین ملزمان کو سزائے موت
اس اعتبار سے خطرہ یہ ہے کہ چونکہ دہشت گردی کی عدالت میں شواہد کا وہ معیار پرکھا نہیں جاتا جو ہونا چاہیے، اس لیے قانون اس میں یہ اجازت دیتا ہے کہ آپ چالیس دن کسی کو قید بھی رکھ سکتے ہیں اور عام عدالتوں کی طرح اس میں شواہد کا معیار نہیں ہے۔ اب خطرہ اس بات کا ہے کہ بینک مینیجر کے قاتل کو سزا نہیں ہو گی جب وہ اپیل کورٹ میں جائے گا۔‘‘
کیا سزائے موت ہی واحد حل ہے؟
سینٹر فار سوشل جسٹس کے پیٹر جیکب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں سوال اٹھایا کہ کیا اس قسم کے کیسز میں سزائے موت ہی واحد علاج ہے؟ پاکستان میں کم از کم 28 ایسے جرائم کی فہرست ہے، جن میں سزائے موت دی جاتی ہے۔ کیا ان سزاؤں سے جرائم میں کوئی کمی آئی ہے؟ پاکستان میں توہین مذہب کا قانون دراصل مزید جرائم کا سبب بن رہا ہے۔ انتہا پسند عناصر اس سے مشتعل ہوتے ہیں اور اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کیا ضرورت اس بات کی نہیں کہ ان قوانین میں بہتری لائی جائے۔ کیا انصاف کے کسی معیاری درجے پر پہنچنا ضروری نہیں۔‘‘’توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو روکا جائے‘
کشور مصطفیٰ