بھارت: کشمیر کا تعلیمی نصاب سیاسی نظریات کی نذر
22 مئی 2022گزشتہ ہفتے منوج سنہا نے ایک سیمینار سے مخاطب ہو کر اس بات کا اعادہ کیا کہ برطانوی سامراج سے ''بھارت کی جدوجہد آزادی میں جموں و کشمیر کے جن افراد نے اپنا کردار نبھایا تھا ان کی قربانیوں کو جلد ہی کشمیر کے تعلیمی نصاب میں شامل کر لیا جائے گا۔ یہ لوگ تاریخ کی کتابوں سے غائب ہوگئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سماج کے تئیں ان کی خدمات کو اجاگر کیا جائے۔‘‘
جموں کی سینٹرل یونیورسٹی کے زیر اہتمام 'آزادی کا امرت مہوتسو‘ پروگرام کے تحت 'آزاد ہندوستان اور جموں کشمیر‘ کے زیر عنوان اس سیمینار میں منوج سنہا نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا، ''یہ پروگرام ایک سنہری موقع ہے کہ بھارت کی آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے والے جموں و کشمیر کے ہیروز کی جدوجہد اور قربانی کو تعلیمی نصاب میں شامل کر کے انہیں صحیح خراج تحسین پیش کیا جائے۔‘‘
لائحہ عمل طے کرنے کی تیاری
جموں و کشمیر لیفٹنٹ گورنر کے ترجمان کے بقول منوج سنہا نے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کرنے کے حوالے سے بھارتی دانشوروں اور محققین پر زور دیا کہ وہ ایک لائحہ عمل تیار کریں۔
ان کے بقول،''مقبول شیروانی، پرتھوی ناتھ کول، راجیندر سنگھ، غلام نبی میر، سروانند کول پریمی، پریم ناتھ ڈوگرا اور حکیم عبدالرشید جیسی عظیم شخصیات کی قربانیوں کو بھولنا نہیں ہے۔ ان کی جدوجہد موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ان کی قربانیوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے سے جموں و کشمیر مضبوط ہو گا اور تبھی 'ایک بھارت شریشٹھ بھارت‘ کا خواب پورا ہو گا۔‘‘
’زبردستی کی قوم پرستی‘
ناقدین منوج سنہا کے ایسے اقدامات کو 'زبردستی کی قوم پرستی ‘قرار دے رہے ہیں۔وادی کشمیر میں بین الاقوامی قانون کے ماہر اور ریٹائرڈ پروفیسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''جموں و کشمیر میں اگست دو ہزار انیس کے بعد سے نئی فلم پالیسی، نئی میڈیا پالیسی اور نئی صنعتی پالیسی بنائی گئی اور اب تعلیمی نظام کو درہم برہم کیا جا رہا ہے۔ بندوق کی نوک پر تاریخ کو مسخ کرنے اور زبردستی کی قوم پرستی ایک خطرناک کھیل ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘
اس یونیورسٹی پروفیسر کے مطابق ایسا روس میں اسٹالن اور جرمنی میں ایڈولف ہٹلر جیسے حکمرانوں نے کیا تھا، ''آمرانہ سوچ رکھنے والوں کا یہی شیوہ ہے کہ وہ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں، مظلوم عوام کی یاد داشت کو مٹا دیتے ہیں اور پھر نئی تاریخ لکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن تاریخ کسی کو بخشتی نہیں ہے۔‘‘
اسکولوں اور کالجوں کے ناموں کی تبدیلی
تعلیمی نصاب میں ممکنہ تبدیلیوں سے قبل جموں و کشمیر میں متعدد سرکاری اسکولوں اور اہم شاہراہوں کے نام بھی تبدیل کر دیے گئے۔ جنوبی کشمیر کے شوپیان ضلع میں گورنمنٹ ڈگری کالج کا نام اب امتیاز میموریل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح وادیء کشمیر کے علاوہ جموں کے مختلف علاقوں میں بھی کئی سرکاری اسکولوں اور ڈگری کالجوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ تبدیلی کے لیے کشمیر میں مسلح عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے بھارتی فوجی، نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس کے اہلکاروں اور کشمیری پنڈتوں کے نام استعمال کیے گئے ہیں۔
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے مطابق، ''دفعہ تین سو ستر کے خاتمے کے بعد سے ہی کشمیری عوام کو متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے پر آئے روز نئے قوانین متعارف کرائے جا رہے'ہماری زمینیں ہڑپ کی جا رہی ہیں، میڈیا کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہندو مسلم کا کھیل کھیل کر بھاجپا ایسی آگ لگا رہی ہے، جسے بجھانا مشکل بن جائے گا۔‘‘
مسلم رہنماؤں کے نام غائب
سری نگر کے ایک پرائیویٹ اسکول کے مہتمم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کر بتایا کہ اب تو کتابوں سے بھارت کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلم رہنماؤں سے متعلق مضامین بھی غائب ہو رہے ہیں، ''میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا سر سید احمد خان نے تعلیم کے شعبے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے؟ مولانا ابوالکلام آزاد کی جدوجہد نہیں تھی؟ کیا صرف موہن داس کرم چند گاندھی اور سردار پٹیل ہی نے سب کچھ کیا؟ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہرگز صحیح نہیں ہے لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم سب خاموش تماشائی بن کر رہ گئے ہیں۔‘‘
اس سے قبل حال ہی میں بھارت میں نامور شاعر فیض احمد فیض سے منسوب عنوانات، شاعری اور مغلیہ دور سے وابستہ مضامین کو مرکزی تعلیمی نظام سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن 'سی بی ایس سی‘ کے 2022-23 سیشن کے نصاب سے ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ غیر معمولی تبدیلیاں دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کی تاریخ اور سیاست کی درسی کتابوں میں کی گئی ہیں۔
بھاجپا کا سیاسی ایجنڈہ
نئی دہلی سے شائع ہونے والے اخبار 'دی ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق مرکزی تعلیمی نظام سے کئی اہم موضوعات غائب کر دیے گئے ہیں، جن میں غیر وابستہ تحریک'افریقہ اور ایشیاء میں اسلامی سلطنت کا عروج، صنعتی انقلاب اور سرد جنگ قابل ذکر ہیں۔
کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے تعلیمی نصاب میں چھیڑ چھاڑ کو بھاجپا کا سیاسی ایجنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا،''یہ راشٹریہ شکھشا شریڈر ہے۔ در اصل ان کا نشانہ بھارت کو ہندو راشٹر بنانے والی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نامی تنظیم ہے۔‘‘
بھارت میں کانگریس کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی تعلیمی نظام میں تبدیلی اور نصاب میں اہم موضوعات حذف کرنے پر بھاجپا پر سخت تنقید کی ہے۔