1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: ہندو پنڈت عسکریت پسندوں کے نشانے پر

23 جون 2022

بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں گزشتہ چند ماہ سے مقامی ہندو افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بھارت مخالف عسکریت پسند ہندو پنڈتوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4D6gf
بیتا جی بھٹ اور ان کی اہلیہ اپنے 35 سالہ بیٹے کی موت کے غم سے نڈھال ہیںتصویر: Channi Anand/AP Photo/picture alliance

بیتا جی بھٹ اور ان کی اہلیہ ابھی تک اپنے بیٹے کی موت کے غم سے نڈھال ہیں۔ ان کی چار سالہ پوتی کو دیکھ کر ان کا دل مزید دکھتا ہے جسے اب تک اندازہ نہیں کہ اب اس کے والد کبھی واپس نہیں آئیں گے۔

یہ خاندان بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ہندو اکثریتی علاقے جموں میں رہتا ہے۔ بھٹ کا کہنا ہے، ''اپنی پوتی کو کھیلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، وہ نہیں جانتی کہ موت نے اس کے باپ کو چھین لیا ہے۔‘‘

بھٹ کے بیٹے ایک دفتر میں بطور کلرک کام کرتے تھے۔ اس سال مئی میں انہیں ان کے دفتر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ دو دن بعد پولیس کی جانب سے کہا گیا کہ اس فائرنگ میں ملوث عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود 35 سالہ راہول بھاٹ کی ہلاکت کا غم ان کے والدین کے لیے اب بھی بہت گہرا ہے۔ اپنے بیٹے کی تصویر اٹھائے بھٹ کا کہنا ہے، ''میرے جیسے والد کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کیا ہو سکتی ہے، جس کو اپنے بیٹے کی لاش دیکھنا پڑی ہو۔‘‘

ٹارگٹ کلنگ کی لہر

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ چند ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہر نے انتظامیہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس وادی میں آئے مہاجر ہندوؤں اور یہاں کے مقامی ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں بھارت مخالف باغی ملوث ہیں۔

کشمیر، پاکستان اور بھارت دونوں میں تقسیم ہے۔ دونوں ممالک اسے اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔ کشمیر کے زیادہ تر عسکریت پسند بھارتی ریاست کے ساتھ جنگ میں ہیں۔ وہ یا تو پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پھر وہ کشمیر کو ایک علیحدہ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے کشمیر میں علیحدگی پسند مزاحمت زور پکڑے ہوئے ہے۔ بھارت پاکستان پر اس مزاحمتی مہم کی حمایت اور مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔

دی کشمیر فائلز: یہ فلم بھارت میں اسلاموفوبیا کو ہوا دے گی؟

مقامی ہندو افراد مایوسی کا شکار

اس سال 31 مئی کو مقامی رہائشی راج کمار نے ایک سرکاری سکول کے باہر اپنی اہلیہ کو چھوڑا جو اس اسکول میں ٹیچر تھیں۔ کچھ ہی منٹ بعد راج کمار کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ اسکول پرنسپل نے کمار کو بتایا کہ ان کی اہلیہ ہلاک ہو چکی ہیں۔ راجنی بالا اسکول کی طرف پیدل جا رہی تھیں جب حملہ آوروں نے انہیں قتل کر دیا۔

کچھ روز قبل ہی ان شادی شدہ جوڑے نے انتظامیہ سے اپیل کی تھی کہ انہیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ کمار کے مطابق، ''میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ میری بیٹی اپنی والدہ کے بنا کیسے رہے گی۔‘‘

کشمیر میں ہندو اقلیت میں ہیں جہاں انہیں ہندو پنڈت کہا جاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں بھارتی ریاست کے ساتھ عسکریت پسندوں کے تصادم کے دوران قریب دو لاکھ ہندو پنڈت کشمیر چھوڑ گئے تھے۔ سن 2010ء کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے ایک پروگرام کے تحت قریب چار ہزار ہندو واپس کشمیر آ گئے تھے۔ اس پروگرام کے تحت ان ہندو افراد کو رہائش اور نوکریاں فراہم کی گئی تھیں۔

اب ہندوؤں کی حالیہ ہلاکتوں نے ایک مرتبہ پھر اس کمیونٹی میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ سینکڑوں ہندو پنڈتوں نے سڑکوں پر بھر پور احتجاج کیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرے۔

ب ج/ا ب ا (اے پی)