پی ٹی آئی کا مارچ، کاروبار زندگی معطل
25 مئی 2022جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں تعلیمی ادارے اور زیادہ تر کاروبار بند ہیں جب کہ سٹرکوں پر ٹریفک بہت کم ہے۔ دوںوں شہروں میں جگہ جگہ کنٹینرز اور دوسری رکاوٹیں کھڑی کر کے پی ٹی آئی کے مارچ کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان کا قافلہ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے جب کہ پولیس نے نہ صرف جڑواں شہروں سے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے بھی پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے، جن میں سابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق ایم این اے عندلیب عباس بھی شامل ہیں۔
سندھ سے بھی ڈیڑھ سو سے زائد کارکنان کو گرفتار کیا گیا جب کہ پی ٹی آئی ذرائع کا دعوی ہے کہ مجموعی طور پر پنجاب سے سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے لاہور اور اسلام آباد سمیت کچھ شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا۔
کیا مارچ کامیاب ہو گا؟
مارچ کی کامیابی کے حوالے پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ یہ کامیاب ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تمام طرح کے جبر اور گرفتاریوں کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد خان صاحب کے ساتھ نکل پڑی ہے اور انہوں نے عمران خان کی اس بات کی حمایت کردی ہے، جس میں انہوں نے امریکی سازش کا ذکر کیا تھا۔‘‘
اقبال خان آفریدی کا کہنا تھا کہ مارچ کا مقصد عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کرنا تھا اور پی ٹی آئی اس میں کامیاب ہوگئی ہے۔
کامیابی کے زاویے
بعض ناقدین اس مارچ کی کامیابی کو ایک الگ ہی زاویے سے دیکھ رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر پی ٹی آئی ہر طرف چھا گئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مارچ نے پی ٹی آئی کے کارکنان کو متحرک کر دیا ہے اور پورے پنجاب میں رکاوٹوں کے باوجود وہ لاہور سمیت تمام شہروں میں جمع ہورہے ہیں اور اسلام آباد جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مارچ میڈیا پر بھی چھایا ہوا ہے۔ ہر نیوز بلٹین میں یہ خبر سب سے بڑی خبر ہے۔‘‘
حبیب اکرم کے بقول، ''میڈیا عمران خان کی لمحہ بہ لمحہ موومنٹ کی رپورٹ کر رہا ہے۔ اس سے بڑی اس مارچ کی کیا کامیابی ہوگی کہ اس نے پورے ملک کی توجہ کو اپنے طرف مرکوز کر لیا ہے۔ اس وقت ملک میں اس کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔‘‘
تاہم ن لیگ کامیابی کے اس تاثر کوغلط قرار دیتی ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما اور سابق وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج پچیس لاکھ لوگوں کو نکالنے کا دعوی بھی ویسا ہی کھوکھلا نکلا، جیسے پانچ کروڑ نوجوانوں کو روزگار دینے اور پچاس لاکھ بے گھروں کو گھر بنانے کا دعویٰ نکلا تھا۔‘‘
بیانات کا سلسلہ جاری
اس دوران حکومت اور پی ٹی آئی کی طرف سے مختلف بیانات بھی آتے رہے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ وہ ہر حالت میں اسلام آباد پہنچیں گے جب کہ نون لیگ کے رہنما طلال چوہدری نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کو اڈیالہ جیل بھیجا جائے گا۔ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ عوام کا جم غفیر اسلام آباد آرہا ہے جب کہ مریم نواز کا دعوی تھا کہ پی ٹی آئی پورے پنجاب سے پانچ سو لوگ بھی نہیں نکال سکی۔ رانا ثنا اللہ نے فواد چوہدری پر طنز کرتے ہوئے کا کہا کہ وہ صرف چند سو لوگوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔
مریم نواز سمیت نون لیگ کے رہنماؤں نے یہ دعوی بھی کیا کہ پی ٹی آئی کے لوگوں سے ہتھیار برآمد ہوئے ہیں اور ان ہتھیاروں کو میڈیا میں بھی خوب دکھایا گیا۔ تاہم سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایسے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا اور ان کی بھر پور تردید کی۔
میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے یہ بیان آیا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کا معاہدہ ہوگیا ہے، جو بات چیت کے بعد ہوا لیکن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اس بیان کی تردید کی اور بعد میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس خبر کو گمراہ کن قرار دیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ مطالبات کی منظوری تک اسلام آباد میں رہیں گے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی سماعت چل رہی ہے، جہاں عدالت کے ججوں نے کاروبار زندگی کی معطلی پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت کو کہا کہ وہ کوئی ایسا پلان لائے، جس سے احتجاج بھی ہوجائے اور تشدد بھی نہ ہو اور نہ ہی عام آدمی متاثر ہو۔
اے آر وائی غائب اور پھر بحال
اس مارچ کے موقع پر ملک کے کیبل نیٹ ورک سے اے آر وائی غائب ہوگیا تھا جس کی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے سخت مذمت کی ہے۔ پی ایف یو جے کے سکریڑی جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایسے اقدامات نہ صرف آزادی اظہار رائے پر حملہ ہیں بلکہ اس سے صحافیوں کے لیے معاشی مشکلات بھی پیدا ہوں گی، جو ان کے مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ حکومت فوری طور پر اے آر وائی کی نشریات بحال کرے اور جو نشریات کو بند کروانے میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرے۔‘‘
تاہم صحافتی تنظیموں کے احتجاج کے بعد اور عدالتی مداخلت کے بعد اے آر وائی کی نشریات کو بحال کردیا گیا۔