کیا نئے وزیر خزانہ اقتصادی بحران پر قابو پا سکیں گے؟
19 اپریل 2022مفتاح اسماعیل مختصر مدت کے لیے چار سال قبل پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ یہ اپنی قابلیت اور شہباز شریف کے ساتھ قربت کے باعث جانے جاتے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کو اس مرتبہ روپے کی قدر میں کمی، زر مبادلہ کے ذخائز میں کمی، مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے جیسے بڑے چینلجز کا سامنا ہے۔ اگلے انتخابات کے پیش نظر ان کے پاس نتائج فراہم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پندرہ ماہ تک کا وقت ہے۔
مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے سابق اکانمسٹ ہیں اور انہوں نے پبلک فائنانس اور پولیٹیکل اکانمی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
شدید مالی چینلجز
گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالر سے کم ہو کر 10.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت برآمدات کی ادائیگیوں کے لیے صرف پچاس دن تک کے ذخائر ہیں۔
وزارت خزانہ کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ان ذخائر کو بڑھانے کے لیے وزیر خزانہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے ملک کو پیسہ فراہم کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ ان ممالک نے پاکستان کے مرکزی بینک میں پیسے جمع کرا رکھے ہیں جن کی یہاں موجودگی کی مدت کو بڑھانا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کو قرضے کی نو سو ملین ڈالر کی قسط بھی پاکستان کو دینے پر آمادہ کریں گے۔ پاکستان نے سن 2019 میں آئی ایم کے چھ ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ سب سے پہلے بجٹ خسارے کو کم کرنے کی کوشش کریں گے جو کہ 6.4 ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے اور جسے اس سال جون کے آخر تک چار ٹریلین روپے ہونا چاہیے۔
عمران خان کے دور میں معیشت جمود کا شکار رہی، شہباز شریف
پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں: نئی پاکستانی حکومت کا سبسڈی کے خاتمے پر غور
مشکل اقتصادی فیصلے
پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے توانائی کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈیز بھی اس وقت ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ تاہم سیاسی طور پر یہ سبسڈیز واپس لینا آسان نہیں ہوگا۔ اگر یہ سبسڈیز واپس لی جاتی ہیں تو توانائی کی قیمت اور اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں فوری اضافہ ہوگا۔ شہباز شریف نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ یہ سبسڈی دو ہفتوں تک بڑھائی جا رہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اس سبسڈی کی وجہ سے حکومتی بجٹ کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔
مفتاح اسماعیل ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ دس سال قبل جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اس وقت مفتاح اسماعیل نے صوبائی سرمایہ کاری بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے سرکاری نوکری کا آغاز کیا تھا۔
ب ج، ع ت (روئٹرز)