1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکی دورہ

15 جولائی 2011

امریکہ کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد روکے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بظاہر تناؤ کے باوجود دو طرفہ فوجی روابط میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

https://p.dw.com/p/11w7x
تصویر: picture alliance / dpa

پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے امریکی دورے کے دوران سی آئی اے کے قائم مقام ڈائریکٹر مائیکل مورل اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے پاکستان مارک گراسمین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ادھر افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے جمعرات کی شب پاکستانی بری فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کی۔ پاکستانی اور امریکی فوجی حکام نے حالیہ ملاقاتوں کا سلسلہ امریکہ کی جانب سے فوجی امداد بند کرنے کے بعد گزشتہ منگل کو امریکی فوج کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل جیمز میٹس کی راولپنڈی میں پاکستانی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں سے ملاقات کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس ملاقات کے اگلے ہی روز جنرل پاشا امریکہ روانہ ہو گئے تھے۔

واشنگٹن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ کی سی آئی اے کے ڈائریکٹر سے ملاقات میں دو طرفہ انٹیلی جنس تعاون کو فروغ دینے کے لیے نئی طریقہ کار کو اپنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا اصل مقصد دونوں ممالک کے درمیان نامساعد حالات کے باوجود تعلقات کو بہتری کی طرف لانے کی ایک کوشش ہے۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مغربی سرحدوں سےفوج ہٹائے جانے کی دھمکی کے بعد دوطرفہ فوجی روابط ظاہر کرتے ہیں کہ ابھی دونوں ممالک کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ‘‘ پاک امریکہ تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور امریکی حکمت عملی سزا اور جزا کی ہے، کبھی کہہ دیں گے کہ پاکستان کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں اور افغانستان میں ان کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔’’ معین الدین حیدر مزید کہتے ہیں: ’’یہ چلتا رہتا ہے دونوں طرف سے وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کی امداد روک لیں گے اور ہم کہتے ہیں کہ آپ کےکانوائے روک لیں گے۔‘‘

Mike Mullen NO FLASH
ایڈ مرل مائیک مولنتصویر: AP

دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بہتر طویل المیعاد تعلقات کےلیے ضروری ہے کہ امریکی انتظامیہ صرف اپنے نقطہ نگاہ پر زور دینے کے بجائے پاکستان کے مسائل کو سمجھے۔ ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ ’’ امریکہ کا خیال یہ ہے کہ دہشتگردی صرف وہ ہے جو ان کے خلاف ہو رہی ہے اور پاکستان کے مسائل جو ہیں دراصل وہ پاکستان کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے، اس وقت وہ چاہ رہے ہیں کہ آپ امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلیے آپریشن کریں نہ کہ پاکستان کی ضرورت کے مطابق اور زمینی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے، ظاہر ہے پاکستان کے لیے یہ ناممکن ہے کیونکہ دہشتگردی کے مسائل اس کے اپنے ہیں اور اس کے حل کے لیے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔‘‘

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن اگلے ہفتے پاکستان کا دورہ بھی کرینگے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس دورے میں پاکستان کو امریکہ کی فوجی امداد کی بحالی کے لیے پیشرفت ہوگی۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد، پاکستان

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں