آئی ایس میں ممکنہ شمولیت: برطانوی خاندان ترکی میں گرفتار
21 اپریل 2015ترک حکام کے مطابق ایک ہی برطانوی خاندان کے ان ارکان کو ملکی دارالحکومت انقرہ میں گرفتار کیا گیا۔ ایک ترک اہلکار کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہیں یہ اطلاعات انیس اپریل کو برطانوی خفیہ ایجنسی نے فراہم کی تھیں کہ شاید ایک برٹش فیملی ترکی کی شام کے ساتھ سرحد عبور کر کے ’اسلامک اسٹیٹ‘ میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ابھی تک گرفتار شدگان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تاہم یہ تصدیق کر دی گئی ہے کہ یہ خاندان ایک مرد، اس کی بیوی اور ان کے چار بچوں پر مشتمل ہے۔
ترک پولیس نے بتایا ہے کہ یہ برطانوی خاندان پہلے یونان آیا تھا اور پھر وہاں سے سولہ اپریل کو ترکی میں داخل ہوا۔ گرفتار ہونے والے مرد کی عمر تینتیس برس اور اس کی اہلیہ کی عمر انتیس برس بتائی گئی ہے جبکہ ایک بچہ ابھی بہت ہی چھوٹا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکام کی طرف سے اطلاعات ملنے کے چوبیس گھنٹے بعد اس خاندان کو انقرہ میں ایک ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔
اس وقت یہ برطانوی خاندان انقرہ پولیس کی حراست میں ہے اور توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں اسے افراد کو ملک بدر کر کے برطانیہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ترکی پر ایک عرصے سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ وہ مغربی ممالک کا اتحادی ہے لیکن آئی ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے یورپی شہریوں کو شام جانے سے روکنے کے لیے ناکافی اقدامات کر رہا ہے۔
ترکی پر اس وقت بھی شدید تنقید کی گئی تھی جب فروری میں براستہ ترکی تین برطانوی نوجوان لڑکیاں شام میں داخل ہو گئی تھیں اور انہوں نے آئی ایس میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ حالیہ چند مہینوں کے دوران ترکی میں متعدد ایسے مشتبہ برطانوی شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جو بظاہر عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے رکن بننا چاہتے تھے۔
دوسری جانب ترکی نے یورپی ملکوں سے انٹیلی جنس تعاون بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی طرف یورپی جہادیوں کا بہاؤ روکا جا سکے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ خود یورپی ملک اپنے شہریوں کے طور پر جہادیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق یورپ کے ہزاروں شہری اب تک عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہو چکے ہیں۔