آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ: پاکستان کو اب کیا کچھ کرنا ہے؟
30 جون 2023کافی عرصے سے شدید مالیاتی اور اقتصادی مشکلات کے شکار ملک پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین یہ معاہدہ سٹاف لیول کا ایک انتظامی اتفاق رائے ہے، جس کی مالیت تین بلین ڈالر اور جس کی مدت نو ماہ ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسا اتفاق رائے بھی ہے، جسے 'سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ یا ایس بی اے بھی کہا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے لیے پاکستان ميں ترميم شدہ بجٹ
اس اتفاق رائے کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ایس بی اے معاہدہ پاکستان کے ساتھ 2019ء میں طے پانے والی مالی وسائل کی فراہمی کی اس توسیع شدہ سہولت (Extended Fund Facility) یا ای ایف ایف کا متبادل ہے، جس کی مدت آج 30 جون جمعے کے روز پوری ہو گئی۔ مزید یہ کہ اس ایس بی اے کا مقصد ای ایف ایف کے تحت کی جانے والی کوششوں کو استحکام دینا ہے۔
یہ معاہدہ فی الحال فریقین کے مابین ایک سٹاف لیول معاہدہ ہے، جس کی حتمی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا انتظامی بورڈ جولائی کے وسط میں دے گا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ایس بے اے معاہدے کے کلیدی نکات
-
ملک میں اصلاحات ایک بڑا چیلنج
۔ آئی ایم ایف نے خاص طور پر ملک میں بجلی کے شعبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اس شعبے کے نرخوں میں اس طرح 'بروقت‘ اصلاحات لانا ہوں گی، جن کی مدد سے کم از کم بجلی کی پیداوار پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کیا جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کرنا ہو گا، وہ بھی ان حالات میں کہ جب ملک میں افراط زر کی شرح پہلے ہی ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور یہ سال اصولی طور پر پاکستان میں عام انتخابات کا سال بھی ہے۔
وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے پالیسی مرتب کرنا ہو گی، شہباز شریف
۔ پاکستانی مرکزی بینک کو بیرونی ادائیگیوں کو کنٹرول میں رکھنے اور زر مبادلہ کے ذخائر کے مسلسل بہت کم ہونے کی وجہ سے عائد کردہ درآمدات پر پابندیوں میں نرمی کرنا ہو گی، تاکہ یوں بہت کم رفتار ہو جانے والی اقتصادی ترقی میں اضافہ کیا جا سکے۔ پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر کی موجودہ مالیت محض 3.5 بلین ڈالر بنتی ہے، جو صرف ایک ماہ تک کی ملکی درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے کافی ہوں گے۔
۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک میں افراط زر کی شرح میں کمی کے لیے تندہی سے جامع اور مؤثر اقدامات کرے۔ پاکستانی مرکزی بینک آئی ایم ایف کے مطالبات پر پالیسی ریٹ کہلانے والی اپنی مرکزی شرح سود پہلے ہی 22 فیصد کر چکا ہے۔
آئی ایم ایف اور بھرا ہوا سگریٹ
۔ ریاستی انتظام میں کام کرنے والے پاکستانی اداروں کی وجہ سے حکومت کو ہونے والا مالی خسارہ مسلسل بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کمی کے لیے حکومت کو زیادہ بہتر اور سخت گورننس کرنا ہو گی۔
-
زیادہ فنڈنگ
۔ آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے، تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ دوطرفہ اور کثیرالفریقی کوششیں کرے۔
۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں اور ان رقوم کی عملی ترسیل اب اس لیے متوقع ہے کہ اسلام آباد اور آئی ایم ایف کے مابین ڈیل طے پا گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے بھی، جو پاکستان کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، قرضوں میں رول اوورکلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔
پاکستان آئی ایم ایف کےآگے نہیں جھکے گا، وزیر خزانہ اسحاق ڈار
۔ پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 22 بلین ڈالر درکار ہیں۔ اسلام آباد کو یہ رقوم مالی سال 2024ء میں درکار ہوں گی، جو کل ہفتہ یکم جولائی سے شروع ہو کر 30 جون 2024ء کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔
-
طے شدہ راستے پر سفر لازمی جاری رہے
۔ آئی ایم ایف نے زور دے کر کہا ہے کہ پاکستان کے لیے اپنے سالانہ بجٹ کے حوالے سے نئے سرے سے جائزے کے بعد تیار کردہ بجٹ منصوبوں پر عملد درآمد یقینی بنانا بھی لازمی ہو گا۔ اس کے علاوہ حکومت کو بجٹ میں مختص کیے گئے اخراجات کے علاوہ دیگر اخراجات کے لیے خود پر پڑنے والے دباؤ کا مقابلہ بھی کرنا ہو گا اور ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ سے بھی بچنا ہو گا۔
پاکستان نے سالانہ بجٹ میں اہم موقع گنوا دیا، آئی ایم ایف
۔ نئے ایس بی اے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس معاہدے میں درج تفصیلات پر مکمل اور بروقت عمل درآمد کرنا ہو گا تاکہ بہت بڑے بڑے چیلنجز کے باوجود اور بہت نازک حالات میں بھی نئے مالیاتی پروگرام کی کامیابی خطرے میں نہ پڑے۔
پاکستان جنوبی ایشیا میں افراط زر کی سب سے بلند شرح والا ملک
۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے خاص طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو زر مبادلہ کے اپنے انتہائی محدود ذخائر، بجٹ میں شدید خسارے اور ریکارڈ حد تک زیادہ افراط زر جیسے بڑے چینلجز سے نمٹنے کے لیے ایس بی اے میں درج نکات پر جاں فشانی سے عمل کرنا ہو گا اور اپنے لیے مکمل 'مالیاتی نظم و ضبط‘ کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔
م م/ا ب ا (روئٹرز، اے ایف پی)