آئی بی ایم ایک سو سال کا ہو گیا
17 جون 2011197 بلین ڈالرز کے مارکیٹ شیئر کے ساتھ آئی بی ایم اس وقت دنیا کی 14ویں بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔ گوکہ آئی بی ایم کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس وقت سر فہرست کمپنی ایپل سے جس کا مارکیٹ شیئر قریب 304 بلین ڈالرز ہے، کہیں پیچھے ہے مگر یہ معروف سوفٹ ویئر کمپنی مائیکروسافٹ کے کافی قریب ہے۔ مائیکروسافٹ کا مارکیٹ شیئر اس وقت 201 بلین ڈالر ہے۔
امریکہ کی مینیسوٹا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تاریخ کے پروفیسر تھامس میسا Thomas Misa معلومات اور پراسیسنگ کی طاقت صارفین کے ہاتھوں تک پہنچانے کا کریڈٹ آئی بی ایم کو دیتے ہیں۔ تھامس کہتے ہیں: ’’ انہوں نے اس کا آغاز پنچ کارڈ ٹیبولیشن مشین کے ساتھ 1930 میں کیا۔ 1993ء کے بعد کمپیوٹر کی دنیا میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کے بعد بھی وہ اپنا یہ کردار جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
گوکہ اس سے متعلق اداروں کا آغاز تو انیسویں صدی میں ہوا، تاہم آئی بی ایم اپنے آغاز کا دن 16 جون 1911ء کو قرار دیتی ہے جب تین مختلف ادارے باہم مدغم ہوئے۔ یہ ادارے دی ٹیبولیٹنگ مشین کمپنی، دی انٹرنیشنل ٹائم ریکارڈنگ کمپنی اور دی کمپیوٹنگ اسکیل کمپنی تھے۔ ان تینوں کمپنیوں کے ادغام سے جنم لینے والی کمپنی کو کمپیوٹنگ ٹیبولیٹنگ ریکارڈنگ کمپنی یا CTR کا نام دیا گیا۔
آئی بی ایم کو ایک عظیم کمپنی بنانے کا سہرا تھامس واٹس سینیئر کے سر باندھا جاتا ہے، جنہوں نے 1914 میں CTR کی قیادت سنبھالی اور 1924ء میں اس کا نام تبدیل کرکے انٹرنیشنل بزنس مشین کارپوریشن کردیا۔
آئی بی ایم کا دعویٰ ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکہ میں سب سے زیادہ ایجادات اس کمپنی نے پیٹنٹ کرائی ہیں، جبکہ اس کمپنی میں ملازمت کرنے والے پانچ سائنسدانوں نے فزکس میں نوبل انعام حاصل کیے۔
کیلیفورنیا میں قائم کمپیوٹر ہسٹری میوزیم کے سینئر کیوریٹر ڈیگ سپائسر Dag Spicer کے بقول آئی بی ایم کی کامیابی کے پیچھے اس کمپنی کی طرف سے بڑے رسک لینے کی روایت ہے۔ سپائسر کے مطابق: ’’1930ء کی دہائی میں معاشی بحران کے دور میں ٹام واٹسن نے مارکیٹ میں کھپت نہ ہونے کے باوجود مشینوں کی تیاری جاری رکھی۔ 1935ء میں صدر فرینکلن روز ویلٹ کی حکومت نے سوشل سکیورٹی ایکٹ کی منظوری دی۔ اس قانون پر عملدرآمد کے لیے اس وقت کی حساب کتاب رکھنے والی مشینوں کی ضرورت تھی اور ایسے میں آئی بی ایم ہی واحد کمپنی تھی جس کے پاس یہ مشینیں وافر مقدار میں تیار موجود تھیں۔‘‘
سپائسر آئی بی ایم کی تاریخ کے بارے میں مزید بتاتے ہیں: ’’اپنے والد واٹسن سینیئر کے بعد آئی بی ایم کی صدارت 1955ء میں ان کے بیٹے ٹام واٹسن جونیئر نے سنبھالی اور انہوں نے 1964ء میں پوری کمپنی کو جیسے داؤ پر لگا دیا: ’’ ٹام واٹسن جونیئر نے اپنی کمپنی کی کُل قیمت کے برابر رقم پانچ بلین ڈالر جو آج کے 100 بلین ڈالرز کے برابر بنتے ہیں وہ ایک نئی کمپیوٹر مشین کی تیاری پر لگا دیے جسے سسٹم 360 کا نام دیا گیا۔‘‘
سپائسر مزید بتاتے ہیں: ’’سسٹم 360 کمپیوٹر کی اب تک کی تاریخ کا کامیاب ترین مین فریم کمپیوٹر ہے، جس کے بعد نیلے رنگ کا آئی بی ایم کا نشان لوگوں کی یاداشت میں نقش ہوگیا۔‘‘ تاہم آئی بی ایم پرسنل کمپیوٹر کے حوالے سے اپنی کامیابی برقرار نہ رکھ پائی۔ سپائسر کہتے ہیں :’’مائیکروسافٹ اور انٹیل نے آئی بی ایم کی طرف سے متعارف کرائی جانے والی پرسنل کمپیوٹر مارکیٹ پر جلد ہی دسترس حاصل کرلی۔‘‘
آئی بی ایم نے اپنا پرسنل کمپیوٹر کا شعبہ 2005ء میں 1.25 بلین ڈالرز کے عوض چائنہ کی کمپنی لینوو Lenovo کو فروخت کر دیا۔ 2010ء میں اس کمپنی نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے سوفٹ ویئر اور سروس کے شعبوں میں قدم رکھا اور ان شعبوں میں قریب 100 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔
آئی بی ایم کا نام رواں برس کے آغاز میں ایک مرتبہ پھر زبان زد عام ہوگیا جب اس کے تیار کردہ کمپیوٹر واٹسن نے ذہانت کی آزمائش کے معروف امریکی شو جیپرڈی میں دو انسان چیمپیئنز کو شکست دے دی۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں یہ ایک بڑی کامیابی قرار دی گئی تھی۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: عدنان اسحاق