1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آبنائے ہرمز: امریکی مشن میں ممکنہ جرمن شمولیت پر گہرے شبہات

31 جولائی 2019

امریکا نے جرمنی کو آبنائے ہرمز کے مشن میں شامل ہونے کی باضابطہ درخواست کی ہے۔ اس مناسبت سے جرمنی کے حکومتی اور سیاسی حلقے ابھی تک کسی ایک موقف پر متفق دکھائی نہیں دیتے۔

https://p.dw.com/p/3N3VD
Symbolbild: US Marine im Persischen Golf
تصویر: Reuters/U.S. Navy/D. Swanbeck

جرمنی کے نائب چانسلر اور وزیر خزانہ اولاف شولس نے کہا ہے کہ وہ آبنائے ہرمز کے علاقے کے لیے عسکری مشن میں شامل ہونے کی امریکی درخواست پر گہرے شبہات رکھتے ہیں۔ جرمن وزیر خزانہ نے اپنے ان خیالات کا اظہار ٹیلی وژن چینل زیڈ ڈی ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

اس گفتگو میں ملکی نائب چانسلر نے مزید کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس خطے میں عسکری کشیدگی سے ہر ممکن طریقے سے گریز کیا جائے۔ شولس کے مطابق آبنائے ہرمز کا یہ مشن خطرے کا حامل ہے اور کسی بڑے تنازعے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑے خطرے کے تناظر ہی میں وہ اسے مناسب خیال نہیں کرتے۔

Golf von Oman US Marine beobachtet Schiffe
آبنائے ورمز میں امریکی کمانڈوز ایرانی جنگی کشتیوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لیتے ہوئےتصویر: Reuters/U.S. Navy/D. Holbert

جرمن دارالحکومت برلن میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے کہ جرمن حکومت سے آبنائے ہرمز کو محفوظ گزرگاہ بنانے کے مشن میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ سفارت خانے کے مطابق برلن حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ فرانس اور برطانیہ کی طرح اس مشن کا حصہ بنے تا کہ ایرانی جارحیت کا راستہ روکا جا سکے۔

جرمن وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ طے پانے والا انٹرنیشنل جوہری معاہدہ ایک بہترین آپشن ہے اور اسی سے تہران کو جوہری ہتھیار سازی سے روکا جا سکتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کے ایک بیان کو بھی رپورٹ کیا ہے، جس میں انہوں نے کشیدگی میں کمی لانے کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے ایران پر دباؤ بڑھانے کی امریکی حکمت عملی کا حصہ بننے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔

Iran | Britischer Tanker Stena Impero | Iranische Revolutionsgarde
تیز رفتار ایرانی جنگی کشتیاں بھی آبنائے ہرمز میں سرگرم ہیںتصویر: AFP/Getty Images/H. Shirvani

جرمنی کی مخلوط وفاقی حکومت میں شامل جونیئر پارٹنر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں اس امریکی تجویز کے حوالے سے خاصی مخالفت پائی جاتی ہے۔ ایس پی ڈی کی خواہش ہے کہ میرکل کا حکومتی اتحاد امریکی قیادت میں شروع کیے گئے اِس مشن کا حصہ بننے سے ہر ممکن اجتناب کرے۔ میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سینیئر اراکین بھی اس امریکی تجویز کے مخالف خیال کیے جاتے ہیں۔

امریکی درخواست کے حوالے سے جرمن وزارت خارجہ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا کہ امریکی قیادت میں شروع ہونے والے اس سکیورٹی مشن میں برلن کی شمولیت کا کوئی امکان ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جرمن حکومت ان منظم یورپی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گی، جو کشیدگی میں کمی کے لیے کی جا رہی ہیں۔

 

ع ح، م م، نیوز ایجنسیاں

یورپی شہری ایران کی جوہری ڈیل کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں