1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آتش تاثیر کی شہریت کی منسوخی، بھارتی حکومت تنقید کی زد میں

12 نومبر 2019

بھارت میں صحافی اور مصنف آتش تاثیر کی اوور سیز شہریت ختم کرنے کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی جاری ہے اور اسے مودی حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3SrkD
Großbritannien Autor Aatish Taseer
تصویر: Getty Images/C. Jackson

بھارتی حکومت نے چند روز قبل آتش تاثیر کی اوؤرسیز سیٹیزن آف انڈیا  (او سی آئی) شہریت یہ کہہ کر منسوخ کر دی تھی کہ انوں نے اس کی درخواست دیتے وقت یہ بات چھُپائی کہ ان کے والد پاکستانی تھے۔

آتش علی تاثير سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے ہیں۔ آتش کی والدہ تلوین سنگھ کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ ایک نامور صحافی ہیں۔

آتش کے والدین لندن میں دوست ہوا کرتے تھے اور ان کی پیدائش وہیں ہوئی۔ بعد میں ان کی والدہ بھارت آگئيں اور آتش کی بیشتر پرورش دلی اور لندن میں ہوتی رہی۔ آج کل وہ نیو یارک میں رہتے ہیں اور لبرل اقدار کے حامل مصنف ہیں۔

بھارتی وزارت داخلہ نے آتش کی او سی آئی کی منسوخی کا اعلان غیر روایتی طور پر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے کیا: ''آتش تاثیر کی او سی آی سے متعلق جو اعتراضات تھے اس پر جواب دینے کے لیے انہیں موقع فراہم کیا گیا تھا تاہم وہ اس نوٹس کا جواب دینے میں ناکام رہے اس لیے اسے منسوخ کر دیا گيا ہے۔''

Indien Neu Delhi | Indien feiert 73. Unabhängigkeitstag
تصویر: Reuters/A. Abidi

اس پر ذرائع ابلاغ میں تنقید ہوئی کہ بھارتی حکومت کا یہ اقدام انتقامی کارروائی ہے کیونکہ آتش نے معروف امریکی میگزین 'ٹائمز' کے ایک مضمون میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر نکتہ چینی کی تھی۔ گذشتہ برس شائع ہونے والے اس مضمون کا عنوان تھا ''انڈیاز ڈیوائڈر ان چیف'' جسے میگزین نے سر ورق پر مودی کی تصویر کے ساتھ شائع کیا تھا۔ اس میں مودی پر ملک میں مذہبی تفریق بڑھانے اور ہندتوا کو فروغ دینے کا الزام تھا۔

بھارتی وزارت داخلہ نے ایک ٹویٹ میں میڈیا کی تنقید رد کی اور کہا کہ  یہ الزام "حقیقت پر مبنی نہیں اور پوری طرح سے غلط ہے۔''

خود آتش تاثیر نے حکومت کے اقدام کو انتقامی کارروائی کہ کر مسترد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے انہیں جواب دینے کے لیے صرف چوبیس گھنٹے دیے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں بیس دن بعد نوٹس ملا پھر بھی انہوں نے اس کا جواب فوری طور پر نیو یارک میں بھارتی سفارتخانے کو پہنچا دیا۔ ثبوت کے طور پر آتش نے سوشل میڈیا پر اس کا سکرین شاٹ پوسٹ کیا۔

آتش تاثیر نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں اپنی ولدیت سے متعلق سوال پر بھارتی وزارت داخلہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سوال کا کوئی جواز نہیں۔ 

آتش کی حمایت  میں کئی نامور بھارتی شخصیات نے سوشل میڈیا پر اظہار خیال کیا۔  سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ، ''مودی کے خلاف جو بھی منہ کھولے اُسے غدار قرار دیا جاتا ہے۔ ایک شخص جس نے پاکستان میں بھی ایسی شخصیات کے خلاف لڑائی لڑی اس کے ساتھ آپ ایسا کر رہے ہیں، یہ بیہودگی ہے۔ اس حکومت نے تو تمام حدود پار کر لی ہیں۔''

Indien Shashi Tharoor Politiker und Schriftsteller
تصویر: Getty Images/AFP/R. Jain Paras

کانگریس پارٹی کے رہنما اور رکن پارلیمان ششی تھرور نے کہا کہ، "یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ حکومتی ترجمان جو جھوٹا دعوی پیش کر رہا ہے اس کی با آسانی نفی ہوسکتی ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہماری جمہوریت میں اس طرح کی باتوں کا ہونا ہے۔ کیا ہماری حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ ایک صحافی سے خوف محسوس کرتی ہے؟"

حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک رہنما نے آتش تاثیر کو سخت گیر اسلامی نظریات کا حامل قرار دیا۔ جواب میں مورخ و مفکر رام چندر گوہا   نے کہا کہ، "جو شخص یہ سوچتا ہے کہ آتش تاثیر سخت گیر اسلامی نظریات کے حامل ہیں، وہ یا تو پڑھنا نہیں جانتا، یا پھر تاثیر کی لکھی ایک سطر بھی نہیں پڑھی ہے، یا پھر وہ اس بات میں یقین رکھتا ہے کہ صرف اس طرح کے اسلامی نظریات والا ہی مودی کے قول و فعل پر تنقید کر سکتا ہے۔''

سماجی امور کے سرکردہ دانشور پرتیش نندی نے بھی حکومت کے اس روپے پر سخت ناراضگی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ اس طرح کے اقدامات ''یقینی طور پر بیوقوفی اور عدم برداشت کی نشانی ہے جو اس حکومت کی پہچان بن چکی ہے۔ آتش بہترین مصنف ہے، اسے ملک بدر کرنے کے بجائے اس پر فخر کرنا چاہیے۔''

Indien Wahl 2019 | Westbengalen, Anhänger der Bharatiya Janata Party
تصویر: DW/S. Bandopadhyay
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں