آج کا بھارت، ہر روز تين ہزار بچوں کی ہلاکت
17 فروری 2012اقوام متحدہ کی ايک رپورٹ کے مطابق جنوب ايشیا ميں ہر ايک ہزار نومولود بچوں ميں سے 66 بچے اپنی پيدائش کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر جاتے ہیں۔ بھارت ميں يہی تعداد 103 بتائی جاتی ہے جو کہ خطے ميں کم سن بچوں میں اوسط شرح اموات کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے 16 فروری کو جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں اس بات کا انکشاف کيا کہ بھارت ميں بچوں کی ایسی اموات کی سب سے اہم اور بنيادی وجہ کم خوراکی ہے۔
اس کے علاوہ ديگر وجوہات ميں حفظان صحت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی، کھانے پينے کی اشياء کی دستیابی اور ترسيل سے متعلق انتظامی مسائل، اچھی خوراک کی اہمیت سے متعلق شعور کی کمی اور ناکافی سرکاری بجٹ بھی شامل ہيں۔ گزشتہ دنوں اسی حوالے سے ملکی وزير اعظم من موہن سنگھ نے اپنے ايک بيان ميں بھارت میں ناکافی غذا کے مسئلے کو اس ملک کے ليے شرمناک قرار ديا تھا۔
بھارت کے فوڈ پاليسی ريسرچ انسٹيٹوٹ کی ايک محققہ پورنيما منان نے بھی بچوں کے ليے معياری اور کافی مقدار ميں غذا کی عدم دستيابی کے معاملے کو شرمناک قرار ديا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا، ’غذا کی کمی کا مسئلہ بھارت کے غريب عوام کو درپيش کئی طرح کے ديگر مسائل کی عکاسی بھی کرتا ہے‘۔
غربت بھارت کا ايک بڑا مسئلہ ہے جو کم خوراکی کے تدارک کے ليے کیے جانے والے سرکاری اقدامات کی راہ ميں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ خبر ایجنسی روئٹرز کے مطابق بھارت میں کم خوراکی سے متاثرہ بچوں کی بھاری اکثريت دور افتادہ قبائلی اور مقابلتاﹰ کم وسائل والے علاقوں میں رہتی ہے۔ ایسے علاقوں ميں ايک اوسط خاندان اکثر اپنا گزارہ دو امریکی ڈالر روزانہ سے بھی کم کے برابر مالی وسائل ميں کرتا ہے، اور اس کے ارکان کے لیے کافی يا غذائیت سے بھرپور خوراک کا حصول ممکن ہی نہیں ہوتا۔ روئٹرز کے مطابق بھارت کے بہت سے شہری اور دیہی علاقوں ميں آج بھی کم عمر ميں شاديوں کا رواج ہے، جس کے نتيجے ميں بھی زیادہ تر بچے کمزور ہی پيدا ہوتے ہيں۔
تجزيہ کاروں اور صحت کے شعبے سے متعلق ماہرين کے ليے يہ بات قابل غور ہے کہ بھارت ميں گزشتہ سالوں ميں ہونے والی معاشی ترقی کے باوجود حکومت بچوں کو درپیش غذا کی کمی کے معاشرتی مسئلے پر ابھی تک قابو نہیں پا سکی۔ 1990ء سے لے کر 2005ء تک کے عرصے میں ملکی معيشت کا حجم تین گنا ہو گيا اور بھارت اب ايشيا کی تيسری بڑی اقتصادی طاقت بن چکا ہے۔ اس دوران ملک ميں فی کس سالانہ آمدنی صرف 96 ڈالر سے بڑھ کر 489 ڈالر بھی ہو گئی تھی، جو کہ سال 2011 ميں بین الاقوامی مالياتی فنڈ IMF کے مطابق 1527 ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
ان دنوں بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا بھی خواہش مند ہے۔ البتہ ماہرين اس بات کو تعجب کی نگاہ سے ديکھتے ہيں کہ ملک ميں ابھی تک صحت کے شعبے میں خرچ کی جانے والی رقوم کی مجموعی مالیت عالمی تناظر میں اوسط سے کافی کم ہے۔ سال 2009 ميں بھارت میں مجموعی قومی پیداوار يا GDP کا محض 1.2 فيصد حصہ صحت کے شعبے میں استعمال کیا گیا تھا۔
عالمی بينک کی جاری کردہ ايک رپورٹ ميں انتباہ کيا گيا ہے کہ غريب ممالک ميں ناکافی غذا سے منسلک مسائل کی وجہ سے سالانہ بنیادوں پر ملکی ترقی کا عمل تقريباﹰ تین فيصد تک کی شرح سے منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق بھارت ميں خوراک کی ناکافی دستیابی ملکی معيشت کو متاثر کر رہی ہے۔ نئی دہلی حکومت بظاہر اپنا وہ ہدف بھی حاصل نہیں کر سکے گی جس کے مطابق سال 1990 سے لے کر 2015ء ملک میں بچوں کی اموات میں دو تہائی کمی اور کم خوراکی کے واقعات میں 50 فيصد کی کمی لائی جانا ہے۔
ان حقائق کی روشنی ميں بھارتی حکومت نے جو اقدامات کیے ہيں، ان ميں مالیاتی اعتبار سے بہت بڑا منصوبہ کہلانے والا فوڈ سکیورٹی بل سرفہرست ہے۔ اس بل کے تحت 63.5 فيصد بھارتی باشندوں کو رعايتی نرخوں پر چاول اور آٹا فراہم کيے جائیں گے۔ چند تجزيہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت اس بل کے ذریعے عوام کو ريليف دے کر دراصل اپنے لیے سياسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: مقبول ملک