’’آج کھانے میں کیا ہے؟ ‘‘، ’’کیڑا برگر ‘‘
جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، خوراک کی عالمی صنعت غذا کی فراہمی کے ایسے تادیر دستیاب رہنے والے ذرائع تلاش کر رہی ہے جو ہمارے ماحول کی پیداوار ہوں۔ کیڑے مکوڑوں کا کردار بھی اس حوالے سے اہم ہے۔
ٹِڈے سے بنا مزے دار کھانا
گزشتہ چالیس سالوں میں قابل کاشت زمین کا قریب ایک تہائی حصہ بڑھتی آبادی کی نذر ہو گیا ہے۔ اس صورت حال سے پیدا ہونے والی غذائی مشکلات کو دور کرنے کے لیے بہت سے افراد کا ماننا ہے کہ کیڑے خوراک کا بہترین نعم البدل ثابت ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ٹوکیو کا یہ شہری بڑے مزے سے انڈے پر ٹڈی رکھ کر کھا رہا ہے۔
کانگو میں کیٹر پلر
کیڑوں کو انسانی خوراک کے طور پر استعمال کرنے کو ’اینٹوموفیجی‘ یا حشرات خوری کہتے ہیں۔ کانگو کے شہر کنشاسا کے تصویر میں نظر آنے والے اس ریستوران میں کیٹلر پلرز کو زیتون کے تیل کے ساتھ گِرل کیا جاتا ہے جو سستے بھی ہیں اور پروٹین کا ذریعہ بھی۔
آج جھینگر پکائیں
یورپ اور امریکا میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں اب بھی حشرات خوری پوری طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اس تصویر میں سڈنی کے ایک ماہر باورچی نوشاد عالم جھینگروں کی ایک خاص ڈش دکھا رہے ہیں۔
کھانے پر یہ رینگتا ہوا سا کیا ہے؟
کیڑوں کو بہت کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ بذات خود مچھلیوں اور جانوروں کی پائیدار خوراک ہیں۔ بنکاک کے ریستوران کی اس تصویر میں پروں والی چیونٹیاں مچھلی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں۔
پام آئل کا نعم البدل؟
انڈونیشیا میں ایک ہوٹل ’ بائٹ بیک‘ کے مالک کیڑوں کو پام آئل کے نعم البدل کے طور پر فروغ دے رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ کیڑے نہ صرف غذائیت سے بھر پور ہیں بلکہ ان میں بہت زیادہ معدنی مواد اور چربیلے ایسڈ بھی پائے جاتے ہیں۔
کیڑا لالی پاپ بھی
سن 2050 تک گوشت کی عالمی ڈیمانڈ پچھتر فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے۔ ایسے میں ماحولیاتی پروٹین یعنی حشرات سے بنی طرح طرح کی خوردنی مصنوعات بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ تصویر میں دکھائے گئے کیڑوں اور جھینگروں سے بنے یہ لالی پاپ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
شہد کی مکھی کا کیک
برلن کے ماحولیاتی میلے میں آنے والے شہد کی مکھی والے اس کیک کے چسکے بھی لیتے ہیں۔ تاہم اس دباؤ کے پیش نظر کے شہد کی مکھیوں کی اپنی آبادی اب دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے، فراوانی سے دستیاب دوسرے حشرات کو غذا میں شامل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔